،بیوروکریسی نے پاکستان کے وجود کو گریڈ بائیس سے منسلک کر دیا ہے ،شیڈول 4 کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس 56 ، سی سی آئی کے پاس 18 اور باقی صوبائی اختیارات ہیں
تاہم وفاقی حکومت نے سی سی آئی اور صوبائی اختیارات پر ڈویژنز اور منسٹریاں بنائی ہوئی ہیں،جن کا واحد مقصد بیوروکریسی واسطے گریڈ بائیس کا حصول ہے اور یہ اس لیے ممکن ہو جاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو وزرا کے لیے بھی تو ڈویژنز اور منسٹریاں چاہیں ، وفاق میں آئینی طور پر تیس کی بجائے صرف آٹھ سے دس منسٹریاں بن سکتی ہیں اور اتنے ہی وزیر اور سیکریٹریز چاہیں مگر سارا نظام گریڈ 22 اور وزیروں کو کھپانے پر قائم ہے
مثال کے طور پر وفاقی وزیر تعلیم و سیکریٹری کی آئینی حیثیت کیا ہے؟
اس غیر آئینی اداروں کو ختم کر کے خاطر خواہ حکومتی اخراجات کم کیے جا سکتے ہیں ۔
انتظامی اصلاحات گڈ گورنس کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ سول سروس اصلاحات پر کم وبیش گفت و شنید رہتی ہے، وہاں پر انتظامی اور ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ انتہائی کم ہے۔ ہمارے انتظامی ادارے ہیومن ریسورس سے لیکر دفتری طریقہ کار کی کارکردگی میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔ وفاقی ادارے تو مسلسل نقصان میں جا رہے ہیں اور ریاست کے لیے سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی صوبائی ادارے بھی کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں۔
موجودہ دور ٹیکنالوجی اور مہارت کا ہے۔ ایسے میں سرکاری ہیومن ریسورس نہ تو بنیادی مہارت رکھتا ہے اور نہ ہی کارکردگی دکھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ انتظامی اور سیاسی حفاظت میں سرگرم سرکاری ہیومن ریسورس کو کارکردگی جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ اگر سرکاری ملازمین کے خلاف انضباطی کارروائی ہو بھی جائے تو وہ انتظامی عدالتوں سے ریلیف لے لیتے ہیں اور یوں اداروں میں اقربا پروری اور عدم کارکردگی کا رواج فروغ پاتا رہتا ہے۔
تاہم بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اداروں کی ساخت مقاصد کے لیے قائم نہیں کی جاتی بلکہ اعلیٰ افسران اور سیاسی وزراء کو کھپانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ بہت سے ادارے صرف اس لیے نقصان میں بھی چلائے جا رہے ہیں تاکہ گریڈ بائیس کے افسران اور وزراء کو کھپایا جا سکے۔ مثال کے طور موجودہ کابینہ کی تعداد ستر اراکین سے بھی زیادہ ہے اور یوں نہ صرف وزراء بلکہ افسران بھی ان غیر ضروری اداروں میں کھپ سکتے ہیں۔
اصولاً اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی اداروں کے حجم میں کمی آنی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہو سکا کیونکہ وفاقی افسران کو گریڈ بائیس چاہیے تھا اور سیاست دانوں کو وزارت۔ کیونکہ یہ باہمی مفادات کا کھیل ہے اور یوں ادارے اور افسران قائم رہتے ہیں۔
تاہم اداروں کی یہ ساخت مالی طور پر ریاست پر بوجھ ہیں۔ اداروں کی تنظیم نو کر کے مالی بچت اور گڈ گورننس کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی اداروں کی تنظیم نو انتہائی ضروری ہے، کیونکہ ایسا کیے بغیر گڈ گورننس اور سروس ڈیلوری کا حصول ممکن نہیں ہے۔ مگر ایسا ہونا انتہائی مشکل ہے کیونکہ یہ گریڈ بائیس کا پاکستان ہے اور اس گریڈ کو اداروں اور عوام سے کوئی غرض نہیں ہے۔