تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
تینوں بچیاں سوال سن کر حیران رہ گئیں۔ بڑی کی عمر آٹھ سال ، چھوٹی کی چھ سال اور سب سے چھوٹی پانچ سال کی تھی، والدہ کے ساتھ کھیل رہیں تھیں۔ والدہ کسی کام سے کچن گئیں۔ بچیوں نے مختلف چیزوں کی تلاشی لینی شروع کر دی ۔ والدہ میک اپ نہیں کرتی تھی ،گھر میں میک اپ کا کوئی سامان نہیں تھا۔ نہ جانے کہاں سے لپ سٹک بچیوں کے ہاتھ لگ گئی ۔ اچھا مشغلہ ہاتھ آگیا۔ ٹی وی پہ دیکھا تھا کہ لپ سٹک کیسے لگائی جاتی ہے ۔ بڑی بہن نے انتہائی نفاست سے نہ صرف اپنے ہونٹوں پر لپ سٹک لگائی بلکہ چھوٹی دونوں بہنوں کے ساتھ بھی پورا انصاف کیا۔والد صاحب کمرے میں آ گئے ، خاتون خانہ بھی کچن سے واپس کمرے میں آ رہی تھیں۔ دیکھا کہ صاحب خانہ کمرے میں موجود ہیں تو دروازے پہ کھٹرے ہو گئیں۔ انہوں نے بچیوں کے سر پہ ہاتھ پھیرا ، شفقت سے پوچھا۔ بیٹا! “آپ کے والد نے بھی کبھی لپ سٹک لگائی ہے ؟” بچیاں سوچتی رہیں، والد صاحب نے بھی جلد بازی نہ کی۔ سوچنے کا پورا موقع دیا ۔ کافی وقت گزر گیا تو اپنا سوال دہرایا ۔بچیاں جواب دے نہیں پا رہی تھیں۔ آخر بڑی بیٹی بولی:” نہیں کبھی نہیں “، صاحب بولے: -” دیکھو بیٹا جو کام تمہارا باپ نہیں کرتا وہ کبھی مت کرنا ۔بچیوں کو ہمیشہ باپ جیسا بننے کی کوشش کرنی چاہیے ، تمہارا باپ تو کوئی عام باپ نہیں ۔ کروڑوں، اربوں لوگوں سے بہتر ہے۔ عالم ہے، خوش شکل ہے، اعلیٰ ترین ڈگری رکھتا ہے، کاروبار کے اسرار و رموز جانتا ہے، خاندانی آدمی ہے ۔ہم کوئی عام لوگ نہیں ۔ تم عام لوگوں جیسی نہیں ہو۔ تم لوگ اپنے ننہال جیسے بھی نہیں ہو۔ وہاں تو کوئی پڑا لکھا نہیں۔ تمہاری ماں اور خالہ اوکھے سوکھے پڑ ھ گئیں، تمہاری نانی کی وجہ سے ، خاندان کے دن بدل گئے۔ مرد تو ان کے خاندان کے کچھ کرتے نہیں۔ تمہارے نانا ابو بھی ساری زندگی لا ٹ صاحب بنے رہے ۔کچھ کر کے نہیں دیا اور اپنے دادا جی کو دیکھو ،واصل باقی نویس تھے ، ڈی سی، کمشنر ان کے بغیر فیل تھے، نرے ناکام ۔کتنے افسروں کی کامیابی کی واحد وجہ تمہارے دادا جی تھے۔ ریٹائرڈ ہوئے مدتیں گزر گئیں۔ آج بھی محکمہ مال کے لوگ ان کے دور کو یاد کرتے ہیں، مشورے لینے آتے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر صاحب کل ملے تھے۔ آپ کے دادا ابو کو سلام کہہ رہے تھے۔ تمہارےباپ نے کبھی لپ سٹک نہیں لگائی۔ تمہارے دادا ابو نے کبھی لپ سٹک نہیں لگائی۔ ہمارے خاندان میں بندے کا زیور ۔ میں بھلے نوکری کروں، نہ کروں مگر اچھے وقتوں میں ایم اے سیاسیات کیا تھا۔ میں سیاسیات سے واقف ہوں ،بکواسیات سے بھی واقف ہوں۔ ایسی بکواسیات کی ہمارے گھر میں کوئی جگہ نہیں ۔تمہاری ماں کبھی کبھی لپ سٹک لگا لیتی ہے مگر میں کبھی اسے کچھ کہتا نہیں۔ آئندہ بیٹا! تم سب احتیاط کرنا اور تمہاری ماں بھی احتیا ط کرے وہ سب سن تو رہی ہے”۔ خاتون دروازے میں کھڑی تھی۔ سب سن رہی تھی ۔خاموش تھی اور کیوں نہ خاموش ہوتی ۔ جب سے شادی ہوئی تھی خاتون احساس ِندامت کا شکار تھی ۔ شوہر عظیم تھا ، اسم بامسمیٰ ۔ آج احساس ہوا کسی اعلی ٰ ظرف آدمی کی بیوی ہونا کیا معنی رکھتا ہے ۔وہ ان پڑھ نہیں تھیں ،دو مضامین میں ایم اے کر رکھا تھا مگر سیاسیات میں تو نہیں کیا تھا ۔ دو کتابیں لکھ رکھی تھیں لیکن آج کل تو بچے بچے نے کتابیں لکھ رکھی ہیں ، دو بھی نہیں دو دو سو کتابیں لکھ رکھی ہیں۔ وہ پنجاب حکومت کے ایک ادارے میں ملازم تھی، ملازم نہیں تھی سسرال کے بقول نوکر تھی، نوکری کرتی تھی تو نوکر ہی ہوئی۔ شام کو اک نجی ادارے میں کام کرتی تھی مگر یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں تھی، کتنی عورتیں صج شام کام کر رہیں تھی، اور ابھی تک کنواری پھر رہی تھیں۔ اس کے نصیب جاگ گئے تھے ۔ شوہر ایسا ملا تھا ،ایک دفعہ بھی سسرال نہ گیا تھا، کہیں سسرال والوں کا خرچہ نہ ہو جائے۔ سسرال والوں کو بھی اپنے گھر آنے نہ دیا تھا۔ مقصد وہی نیک تھا، کہیں غریبوں کا خرچہ نہ ہو جائے ۔ اتنی احتیاط کرتے تھے اکلوتی سالی اور اکلوتے سالے کی شادی پر بھی نہیں گئے ۔محترمہ کی شادی کے بعدچار دیورانیوں اور تین دیور بیا ھے گئے ۔ سسرال کو زحمت نہیں دی ۔ مقصد وہی کہ کہیں ان کا خرچہ نہ ہو جائے۔ خاتون کو کتنے ہی واقعات یاد آئے، جو شوہر کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت تھے ، شوہر ہی کیا ،سسرال کا ہر فرد عظیم تھا ۔ ساس سسر نے ہر قدم پر رہنمائی کی ۔ کیا پکانا ہے ،کیا کھانا ہے ،کیا پینا ہے، کیسے جینا ہے ، آج کونسا دن ہے، کل کونسا مہینہ ہے ۔انہوں نے ہر معاملے میں رہنمائی کا حق ادا کردیا تھا ۔شوہر تو دنیا جہان سے انوکھی محبت کرتے تھے۔ دنیا ہی نہیں آخرت کی بھی فکر کرتے تھے ، اپنی آخرت کی کم ، زوجہ کی آخرت کی زیادہ ۔جانتے تھے کہ وہ اگر مایا کے جال میں پھنس گئی تو کل روز جزا حساب کتاب مشکل ہو جائے گا۔ آج تک اسے تنخواہ کی بھنک تک نہ لگنے دی تھی، نہ سرکاری ملازمت کی ،نہ نجی کی ، اپنا اکاوئنٹ نمبر دے رکھا تھا ۔ بچوں کی ضرورت کے پیسے دے دیتے تھے کبھی تنگ نہ کرتے تھے ۔ غرض یہ کہ خاتون جتنا سوچتی گئی ، شوہر کی عظمت کے مزید واقعات یاد آتے رہے۔صدق دل سے توبہ کی ،شوہر کے پاؤں پکڑ لئیے۔ آنسووں سے پاؤں دھوئے ، شوہر ٹھہرے ازلی اعلیٰ ظرف ، معاف کر دیا اور سر پر ہاتھ بھی پھیرا۔خاتوں ہنسی خوشی زندگی جی رہی تھی کہ چھوٹی بہن کو حسد کا دورہ پڑا۔ ہماری محترمہ کوکسی سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی مگر کبھی کبھی چھوٹی بہن سے بات ہو جاتی تھی ۔چھوٹی کو اپنے صاحب کی عظمت کا قصہ سنا یا ، فقط اتنا بتلایا ، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اور بیوی ان کا حکم مانیں اور ان جیسے بنیں ۔ چھوٹی رونے لگی، اتنا روئی کہ اسے لگا کہ اپنے حواس کھو بیٹھی ہے۔ چند دن بعد یہ بات ثابت بھی ہو گئی ۔ چھوٹی نے ایک عجیب کہانی اسے لکھ بھیجی ، کہانی پڑھ کر اسے بہن کے پاگل ہونے کا یقین آگیا ۔آپ بھی کہانی سنیئے، آپ بھی محترمہ سے اتفاق کریں گے :- شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے وقت کے ولی کی بیعت کرلی۔ نصحیت کے لئے اصرار کرتا مگر ولی ہنس دیتے ، چپ کر دیتے۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا ،عقیدت مند کے سر پر بادشاہت کا تاج رکھ دیا گیا ، مدتیں گزر گئیں ، سوال وہی رہا اور ولی کا رویہ بھی ۔آخر ایک دن وقت کے قلندر نے بادشاہ کو نصیحت کی :- خود کو کبھی اللہ رسول نہ سمجھنا۔ حیرت زدہ بادشاہ نے گزارش کی :-” فانی انسان خود کو اللہ رسول کیسے سمجھ سکتا ہے؟ کم علم کی رہنمائی فرمائیں”۔ قلندر نے فرمایا :- ” اکثریت کبھی نہ کبھی خود کو اس درجے پر فائز سمجھتی ہے اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ ” کن کہیں اور کام ہو جائے” تم کبھی کچھ کہو اور کام نہ ہو تو غصہ نہ کرنا ۔ جو شخص کسی درجے پر فائز ہو جائے ، وہ خود کو عقل کل اور لائق اتباع سمجھنے کی غلطی کرتا ہے کبھی ایسا نہ سوچنا کہ لوگ تمھارے جیسے ہو جائیں ، ویسے بن جائیں جیسے تم چاہتے ہو۔فقط نبی رسول کا حق ہے کہ ان کی اتباع کی جائے۔خود کو کبھی ایسا مت سمجھنا”۔ کوئی پاگل عورت ہی کسی ہشاش بشاش گھریلو عورت کو ایسی بے تکی حکایت بھیج سکتی ہے، ہے نا”
