تجزیہ کاروں اور ذرائع کے مطابق حماس ڈونلڈ ٹرمپ کی مجوزہ غزہ فائربندی منصوبے میں اہم ترامیم کا مطالبہ کرے گی مگر امکان ہے کہ آئندہ دنوں میں اسے مذاکرات کی بنیاد کے طور پر قبول کر لے۔
ٹرمپ نے حماس کو “تین سے چار دن” کا وقت دیا ہے تاکہ وہ 20 نکاتی منصوبے پر جواب دے، جس میں دو سالہ جنگ کے خاتمے اور غزہ کو غیر معینہ مدت کے لیے بین الاقوامی انتظام کے تحت دینے کی تجویز شامل ہے۔ اسرائیل پہلے ہی اس منصوبے کو تسلیم کر چکا ہے، جو زیادہ تر اس کے مطالبات پر مبنی ہے اور حماس سے مشاورت کے بغیر تیار کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق حماس مشکل فیصلے میں ہے۔ مرکزی اختلافی نکتہ اسلحہ ڈالنے کی شرط ہے، جسے دو ریاستی حل کی پیش رفت کے بغیر ناقابلِ قبول سمجھا جا رہا ہے۔ قیادت غزہ، دوحہ اور استنبول میں منقسم ہے جبکہ ترکی اور قطر حماس کو لچک دکھانے پر زور دے رہے ہیں۔
بیشتر عسکری رہنما مارے جانے کے باوجود حماس اب بھی گوریلا کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور غزہ کے بعض علاقوں میں اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ منصوبے میں یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی افواج کا انخلا، انسانی امداد کی فراہمی اور ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔
نتن یاہو نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس تاخیر کرے تو اسرائیل “معاملہ ختم” کر دے گا۔ یہ فیصلہ نہ صرف حماس بلکہ غزہ کے عوام کے مستقبل کا تعین کرے گا۔