یورپ اس وقت شدید ترین گرمی کی لہر سے گزر رہا ہے جہاں اسپین، فرانس اور اٹلی میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا ہے۔ گرمی کی شدت اور جنگلات میں لگی آگ کے باعث کم از کم چھ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ سیکڑوں کو ہنگامی طبی امداد کی ضرورت پڑی ہے۔ یہ صورتحال ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات کو نمایاں کرتی ہے۔
اسپین کے علاقے کاتالونیا میں دو کسان اس وقت جاں بحق ہو گئے جب ایک تیز رفتار جنگل کی آگ نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 32 سالہ مزدور اور 45 سالہ فارم مالک آگ میں پھنس گئے اور مدد مانگنے کے باوجود نہ بچ سکے۔ حکام کے مطابق یہ آگ 6,500 ہیک ٹر تک پھیل چکی ہے۔ اسپین کے محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ ماہ جون کا درجہ حرارت 23.6 ڈگری سینٹی گریڈ رہا جو جولائی اور اگست کے اوسط درجہ حرارت سے بھی زیادہ تھا، اور ملکی تاریخ کا گرم ترین جون قرار پایا۔
فرانس میں ایک 10 سالہ امریکی بچی محلِ ورسائے کے دورے کے دوران بے ہوش ہو کر جاں بحق ہو گئی۔ بچی اپنے والدین کے ہمراہ تھی اور اسے فوری طور پر طبی امداد دی گئی، لیکن ایک گھنٹے بعد اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔ فرانسیسی وزیر ماحولیات نے بتایا کہ ملک میں اب تک گرمی کے باعث دو اموات ہو چکی ہیں اور تین سو سے زائد افراد کو ہنگامی طبی امداد فراہم کی گئی ہے۔ چار علاقے ریڈ الرٹ پر ہیں جن میں اوب، شیر، لورے اور یونے شامل ہیں۔
اٹلی میں بھی گرمی نے جان لیوا اثرات مرتب کیے ہیں۔ ساردینیا کے ساحلی علاقوں میں دو افراد سمندر کے کنارے گرمی سے بے ہوش ہو کر جاں بحق ہو گئے۔ جبکہ جینوا میں 80 سالہ بزرگ ہسپتال آتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے۔ وینی تو کے علاقے میں دو مزدور زمین کھودنے کے دوران بے ہوش ہو گئے جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔
یونان میں بھی دو بڑے جنگلاتی آگوں نے ہنگامی انخلا کی صورت پیدا کر دی ہے۔ کریٹ جزیرے پر آگ رہائشی علاقوں، سیاحتی مقامات اور انفراسٹرکچر کو خطرہ بن چکی ہے۔ درجنوں فائر فائٹرز آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جبکہ لوگوں کو وہاں سے نکالا جا رہا ہے۔ شمالی علاقے ہالکیدیکی میں ساحلی گاؤں کے قریب آگ تیزی سے پھیل رہی ہے، جس نے بجلی کی فراہمی بھی متاثر کی ہے۔
ماہرین کے مطابق زیادہ عمر والے افراد، چھوٹے بچے، اور کم آمدنی والے مزدور طبقے اس شدید گرمی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ عروب ادارے سے وابستہ ماہر ڈمپل رانا کے مطابق کمزور طبقات، جیسے کہ معمر افراد اور پانچ سال سے کم عمر بچے گرمی کی لپیٹ میں جلد آتے ہیں۔ مزدور طبقہ جو کھلی فضا میں کام کرتا ہے، مسلسل گرمی میں رہنے کے باعث شدید خطرے میں ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے اور عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق انسانی سرگرمیوں کے باعث موسمیاتی تبدیلیاں شدت اختیار کر رہی ہیں، جس سے گرمی کی لہریں زیادہ خطرناک، طویل اور بار بار آنے لگی ہیں۔ “اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ” یعنی شہری علاقوں میں گرمی زیادہ محسوس ہونا، ان خطرات کو دوگنا کر دیتا ہے کیونکہ وہاں سڑکیں، عمارتیں، ٹریفک اور دیگر عوامل گرمی کو جذب اور محفوظ کرتے ہیں۔
یہ گرمی کی لہر یورپ کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ مسلسل بلند ہوتے درجہ حرارت، انسانی جانوں کا ضیاع، اور ایمرجنسی سروسز پر بڑھتا دباؤ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ اب فرضی نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ عالمی سطح پر فوری اقدامات اور مقامی سطح پر منصوبہ بندی ناگزیر ہو چکی ہے۔