ہیپاٹائٹس بی اور سی: ایک قومی المیہ

[post-views]
[post-views]

پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کا پھیلاؤ ایک سنگین مگر نظر انداز شدہ بحران بن چکا ہے۔ عالمی اور علاقائی ادارہ جات صحت کی متعدد رپورٹس کے مطابق، ملک میں وائرل ہیپاٹائٹس کی شرح خطرناک حد تک بلند ہو چکی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے متاثرین کی مجموعی تعداد 1 کروڑ 38 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں 90 لاکھ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں۔ ان مریضوں کی بڑی تعداد ابھی تک غیر تشخیص شدہ ہے، جس کی وجہ سے یہ وائرس معاشرے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ شرح صرف ایک طبی معاملہ نہیں بلکہ سماجی، معاشی اور انسانی ترقی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

عالمی ادارہ برائے صحت عامہ کی رپورٹیں اور انکشافات
اگرچہ عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹس عام طور پر حوالہ بنتی ہیں، تاہم 2024 میں شائع ہونے والی “عالمی صحت شماریاتی جائزہ” نے مزید گہرائی کے ساتھ اس بحران پر روشنی ڈالی۔ اس رپورٹ کے مطابق، پاکستان دنیا میں پانچواں بڑا ملک ہے جہاں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے سب سے زیادہ کیسز پائے جاتے ہیں۔ ایشیا میں صرف بھارت اور چین پاکستان سے آگے ہیں۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں وائرل ہیپاٹائٹس کی شرح 5.8 فیصد سے زائد ہے، جو جنوبی ایشیائی خطے میں اوسط شرح (1.5 فیصد) سے کہیں زیادہ ہے۔

وجوہات: غیر محفوظ طبی طریقہ کار اور نظامِ صحت کی خامیاں
ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ ملک میں رائج غیر محفوظ طبی رویے اور ناتجربہ کار عملہ ہے۔ عالمی ادارہ برائے امراضِ جگر کے مطابق، پاکستان میں 65 فیصد سے زیادہ ہیپاٹائٹس سی کے کیسز طبی طریقہ کار کی کوتاہیوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں غیر جراثیم شدہ سرنجوں کا استعمال، خون کی منتقلی سے قبل اس کی مناسب جانچ نہ کرنا، اور معمولی دکانوں جیسے کہ حجام کی دکانوں پر استعمال ہونے والے غیر صاف آلات شامل ہیں۔ مزید براں، کئی دیہی علاقوں میں عطائی ڈاکٹروں کا پھیلاؤ بھی اس وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کا باعث ہے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ صحت کا نظام صرف کمزور ہی نہیں بلکہ بے ہنگم اور غیر جواب دہ بھی ہے۔

مصری ماڈل: سیاسی عزم اور سائنسی حکمت عملی کی کامیاب مثال
پاکستان کو اپنے طرز عمل کی اصلاح کے لیے مصر کے تجربے سے سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک وقت تھا جب مصر دنیا میں ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ مریضوں والا ملک تھا، لیکن آج وہ اس فہرست میں پاکستان سے کہیں پیچھے ہے۔ مصر نے 2014 میں ایک قومی مہم کا آغاز کیا جس کے تحت 60 ملین سے زائد افراد کی اسکریننگ کی گئی اور 40 لاکھ سے زیادہ مریضوں کا مفت علاج کیا گیا۔ مصر نے نہ صرف مقامی سطح پر ادویات تیار کیں بلکہ انجکشن، خون کی منتقلی اور صفائی ستھرائی کے سخت ضوابط نافذ کیے۔ اس کی بدولت 99 فیصد مریض مکمل طور پر صحت یاب ہوئے اور ملک میں ہیپاٹائٹس سی کی شرح 11 فیصد سے گھٹ کر صرف 0.38 فیصد تک آ گئی۔

پاکستانی نظامِ صحت کی خاموشی: غفلت یا مجرمانہ لاپرواہی؟
اس وقت پاکستان میں ہیپاٹائٹس سے ہر سال تقریباً ایک لاکھ افراد جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ یہ اموات صرف بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ غفلت، نااہلی اور پالیسی کے فقدان کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ سرکاری سطح پر نہ تو کوئی مربوط پروگرام موجود ہے، نہ ہی کوئی جامع حکمت عملی۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا علاج مہنگا اور پیچیدہ ہے، لیکن اگر مصر جیسے ملک نے اسے ممکن بنایا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ حکومت کی جانب سے کسی سنجیدہ اقدام کا فقدان ایک افسوسناک حقیقت ہے، جو اس مسئلے کو مزید بڑھا رہا ہے۔

سماجی و معاشی اثرات: ایک صحت کا بحران، ایک قومی خطرہ
ہیپاٹائٹس صرف ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ اس کے سماجی اور معاشی اثرات بھی سنگین نوعیت کے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے سماجی صحت کی رپورٹ کے مطابق، ہیپاٹائٹس زدہ افراد کی اوسط عمر میں دس سال کی کمی واقع ہوتی ہے۔ مزید برآں، متاثرہ خاندانوں میں بچوں کی اسکول حاضری کی شرح 30 فیصد تک گر جاتی ہے۔ ایک ہیپاٹائٹس زدہ فرد نہ صرف اپنی صحت سے ہاتھ دھوتا ہے بلکہ گھر کی معاشی اور سماجی بنیادیں بھی کمزور کر دیتا ہے۔

سفارشات: مستقبل کے لیے ایک واضح حکمتِ عملی
پاکستان کو چاہیے کہ وہ مصر کی طرح ایک مربوط قومی مہم کا آغاز کرے۔ ہیپاٹائٹس کی مفت اسکریننگ، مقامی طور پر ادویات کی تیاری، ہر طبی ادارے میں حفاظتی تدابیر کا نفاذ، عطائی ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی، اور عوامی آگاہی مہمات کو فوری طور پر شروع کیا جائے۔ اس کے علاوہ، طبی عملے کی تربیت اور نگرانی کے جامع نظام کو رائج کیا جانا ضروری ہے تاکہ علاج کا معیار بہتر ہو اور مریضوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔

اختتامیہ: سیاسی عزم، طبی نظم اور عوامی شمولیت کی ضرورت
پاکستان میں ہیپاٹائٹس کا بحران صرف اعداد و شمار کا معاملہ نہیں بلکہ انسانی جانوں کا سوال ہے۔ مصر نے سیاسی عزم، سائنسی نظم اور عوامی شمولیت سے اس مہلک بیماری پر قابو پایا، پاکستان بھی یہ کر سکتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ حکومت، ادارے اور عوام ایک ساتھ مل کر عملی اقدامات اٹھائیں، ورنہ یہ خاموش وبا پورے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کرتی رہے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos