جس زمانے میں مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور مشرقی تہذیب کا آفتا ب غروب ہونے کو تھا اس وقت شعروادب کی دنیا میں چند ایسی شمعیں روشن ہوئیں جنہوں نے آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب اسی عہد کے سب سے نامور شاعر ہیں۔ اُن کی وجہ اردو شاعری میں انقلاب برپا ہو گیا۔ مرزا غالب کی شاعری حقیقت اور اندرونی احساسات پر مبنی ہے۔
مرزا اسد اللہ خاں نام اور غالب تخلص تھا ۔ مرزا غالب 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے اور 1869 میں ان کا وصال ہوا ۔ غالب کا انتقال دہلی میں ہوا اور وہیں دفن ہیں۔
مرزا غالب کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے ہیں اوربڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے ہیں۔ مرزا غالب کی شاعری قارئین کو خوبصورت شاعری کی مدد سے اپنے اندرونی احساسات کا اظہار کرنے دیتی ہے۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے