ہر لمحہ اگر گریز پا ہے

احمد ندیم قاسمی اردو کے ان گنتی کے ادیبوں اور شاعروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ایک ساتھ فکشن اور شاعری میں غیر معمولی فنکاری کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے اردو فکشن کے زرّیں عہد میں افسانہ نگاری کے میدان میں امتیاز حاصل کیا۔ سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کے دورِ عروج میں کسی دوسرے افسانہ نگار کا چراغ جلنا مشکل تھا لیکن قاسمی نے اس عہد میں بھی اپنی اہمیت کا لوہا منوایا۔ انھوں نے انسانی فطرت کے پیچ و خم کو اپنے گہرے مشاہدے کی روشنی میں اک جامع شکل دی۔ وہ دیہی زندگی کے بڑے نبض شناس تھے اور انسانی نفسیات کو بھی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ انھوں نے زندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ اپنے کرداروں کی نفسیاتی گرہیں کھولنے کی بھی کوشش کی۔ ان کے افسانوں میں ہر نوع کے کردار پاے جاتے ہیں۔ عورتوں کی مظلومی پر لکھے گئے ان کے افسانے ان کو اپنے ہمعصروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ اپنے افسانوں میں احمد ندیم قاسمی نے دیہی زندگی اور اس کے مسائل کی جس طرح تصویر کشی کی ہے اس کے لئے کچھ ناقدین ان کو اس میدان میں پریم چند کے بعد دوسرا بڑا فنکار مانتے ہیں۔ ان کی شاعری میں انسان دوستی کا پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ ادیب و شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ احمد ندیم قاسمی ادیب گر بھی تھے۔

ہر لمحہ اگر گریز پا ہے
تو کیوں مرے دل میں بس گیا ہے

چلمن میں گلاب سنبھل رہا ہے
یہ تو ہے کہ شوخی صبا ہے

جھکتی نظریں بتا رہی ہیں
میرے لیے تو بھی سوچتا ہے

میں تیرے کہے سے چپ ہوں لیکن
چپ بھی تو بیان مدعا ہے

ہر دیس کی اپنی اپنی بولی
صحرا کا سکوت بھی صدا ہے

اک عمر کے بعد مسکرا کر
تو نے تو مجھے رلا دیا ہے

اس وقت کا حساب کیا دوں
جو تیرے بغیر کٹ گیا ہے

ماضی کی سناؤں کیا کہانی
لمحہ لمحہ گزر گیا ہے

مت مانگ دعائیں جب محبت
تیرا میرا معاملہ ہے

اب تجھ سے جو ربط ہے تو اتنا
تیرا ہی خدا مرا خدا ہے

رونے کو اب اشک بھی نہیں ہیں
یا عشق کو صبر آ گیا ہے

اب کس کی تلاش میں ہیں جھونکے
میں نے تو دیا بجھا دیا ہے

کچھ کھیل نہیں ہے عشق کرنا
یہ زندگی بھر کا رت جگا ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos