فجر نیازی
پاکستانی عوام اور معیشت پر گہرے اثرات ڈالنے والے ایک اہم فیصلے میں، حکومت پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان یہ مفاہمت طے پا گئی ہے کہ اگر مالی سال 2025-26 میں بجلی کے شعبے کی آمدن مختص کردہ سبسڈی کی حد یعنی 1.036 ٹریلین روپے سے تجاوز کرتی ہے، تو جولائی 2025 سے بجلی کے نرخ سالانہ بنیادوں پر دوبارہ مقرر کیے جائیں گے۔ یہ مفاہمت 14 سے 24 مئی 2025 کے دوران پاکستان میں ہونے والے آئی ایم ایف مشن کے مذاکرات کے دوران طے پائی۔
یہ فیصلہ پاکستان کی جانب سے مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانے اور توانائی کے شعبے میں سبسڈی کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کنٹرول کرنے کی ایک کوشش ہے۔ حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مقررہ سبسڈی کی حد میں رہتے ہوئے گردشی قرضے میں مزید اضافہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس میں وزیراعظم کے ریلیف پیکیج کی مد میں پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی سے فراہم کردہ 182 ارب روپے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سبسڈی کا حجم جی ڈی پی کے 0.8 فیصد تک محدود رکھا جائے اور اسے نقصانات میں کمی اور قرضوں کی واپسی سے متعلق قابلِ تصدیق اہداف سے جوڑا جائے۔
ملک میں آبی وسائل کی کمی اور مہنگے ایندھن کے استعمال کے باعث بجلی کی پیداواری لاگت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث بجلی کے نرخوں میں اضافے کا خدشہ مزید بڑھ گیا ہے۔ طے شدہ مفاہمت کے تحت، اگر بجلی کی مالی ضروریات سبسڈی کی حد سے تجاوز کریں گی تو نرخوں میں اضافہ کیا جائے گا، مگر یہ اضافہ “ترقی پسند” ٹیرف ڈھانچے کے تحت ہوگا، یعنی زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں پر نسبتاً زیادہ بوجھ ڈالا جائے گا۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بجلی کے شعبے کے لیے ابتدائی طور پر 400 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، جو اب بڑھا کر 636.136 ارب روپے کر دیے گئے ہیں۔ تاہم پاور ڈویژن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی سال 2025 کے دوران سبسڈی کی اصل ضرورت 1.2 ٹریلین روپے سے بھی تجاوز کر سکتی ہے، جس کی وجہ گھریلو صارفین کو دی جانے والی سبسڈی اور مستقل گردشی قرضے کا دباؤ ہے۔
محفوظ صارفین کی تعداد میں اضافہ، جو ماہانہ 200 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں، حکومتی سبسڈی کی بڑھتی ہوئی طلب کی ایک بڑی وجہ بن چکا ہے۔ صارفین نہ صرف اپنے استعمال کو محدود کر رہے ہیں بلکہ سولر سسٹمز کی تنصیب کے ذریعے سبسڈی کے دائرے میں رہنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے بجلی کے شعبے پر مالی دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔
دوسری جانب صنعتی اور کمرشل صارفین، جو ماضی میں کراس سبسڈی کا بڑا ذریعہ تھے، اب مہنگائی اور معاشی سست روی کے باعث اپنی کھپت میں کمی لا رہے ہیں۔ اس سے بجلی کے شعبے میں آمدن کا توازن مزید بگڑ رہا ہے اور حکومت کو سبسڈی کے فرق کو پورا کرنے کے لیے نرخ بڑھانے پڑ رہے ہیں۔
حکومت نے مالی سال 2025 کے دوران 541 ارب روپے کے گردشی قرضے کو ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، جو چھ سالہ قرضوں کی کمی کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاہم یہ منصوبہ اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب سرکلر ڈیٹ ورک آؤٹ اور ایکشن پلان اور پاکستان ہولڈنگ لمیٹڈ کے قرضوں کی تنظیم نو جیسے اقدامات پر مؤثر طریقے سے عمل کیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ، وزارت خزانہ نے پاور ڈویژن کو ہدایت دی ہے کہ بجٹ کی تیاری کے دوران تمام اخراجاتی مراکز اور اکاؤنٹس کے لیے احتیاطی اصولوں پر سختی سے عمل کیا جائے۔ تاہم بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان ہدایات پر عملدرآمد ہمیشہ کمزور رہا ہے۔
سیاسی مصلحتیں بھی پالیسی پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ عوام میں غیر مقبول فیصلہ ہے، جس سے سیاسی ردعمل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بالخصوص انتخابات کے قریب یہ معاملہ اور زیادہ حساس ہو جاتا ہے۔ صنعتی لابیاں بھی نرخوں میں اضافے کی مخالفت کر رہی ہیں، جس سے پالیسی سازوں کے لیے فیصلے کرنا مزید مشکل ہو رہا ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کی توانائی پالیسی میں گہرے ساختیاتی مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔ بنیادی اصلاحات کے بغیر محض سبسڈی میں ردوبدل اور نرخوں میں اضافہ دیرپا حل نہیں۔ اس وقت ملک کو ایک جامع توانائی اصلاحاتی منصوبے کی ضرورت ہے جو بجلی کی ترسیل، چوری، بلنگ کے نظام، اور مہنگے ایندھن پر انحصار جیسے مسائل کا حل نکالے۔
جب تک حکومت سیاسی عزم اور ادارہ جاتی صلاحیت کے ساتھ ان ساختیاتی مسائل کو حل نہیں کرے گی، تب تک بجلی مہنگی ہی نہیں بلکہ معیشت پر بھی بوجھ بنی رہے گی۔