
میرے ایک جاننے والے ابھی حال ہی میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ڈ ہوئے ہیں وہ کو رونا کی ویکسین کروا تو چکے ہیں مگر اس کے اثرات کے ہارے میں انتہائی فکر مند رہتے ہیں۔ میں نے اُن کی فکر مندی دیکھتے ہوئے ایک دن انہیں گزارش کی کہ بجا ہے کہ اگر بعض افرا در یٹائر ڈ ہو بھی جائیں تو اُن کے اثرات اور لوگوں کے اُن کے بارے میں تاثرا ت کافی دیر تک جاری رہتے ہیں مگر سائنس یہ کہتی ہے کہ جب کسی ویکسین کا ری ایکشن ہونا ہو تو عمومی طور پر جلد ہو جاتا ہے ۔ مگر کو رونا کی بیماری کو بعض لوگ بالکل سنجیدہ نہیں لے رہے جبکہ ویکسین بھاری کو رنجیدہ کر رہے ہیں وہ پوری سنجیدگی سے یقین رکھتے ہیں کہ ویکسین اُن کے خلاف عرصہ دراز سے جاری عالمی مہم کا ایک نیا روپ ہے۔
صرف ایک بہروپ ہے۔ ویکسین اپنی جگہ ایک بیماری ہے اور مقصد لوگوں کی لاچاری ہے۔کورونا کی ویکسین کے ساتھ ہمارا رویہ پرا نے زمانے کی اس خاتون جیسا ہے جو ایک روپے کا کھلا لینے ایک دکاندار کے پاس گئی۔ دکاندار نے دواٹھنیاں اس کے حوالے کر دیں خاتون تھوڑی دور گئی تو اس کو خیال آیا کہ دکاندار نے اتنی آسانی سے اس کو دو اٹھنیاں دے دیں تو ضرور اس کو کوئی نہ کوئی فائدہ ہوا ہوگا اور دوکاندار کو کوئی رقم بچ گئی ہوگی۔ وہ واپس گئی اور اس نے دکاندار کو کہا کہ آپ یہ دوا ٹھنیاں واپس لے لو اور میرا روپیہ مجھے واپس کرو۔ دکاندار نے اُس کی بات مان لی اور اُس کا روپیہ ا سے واپس کر دیا۔ خاتون کو تھوڑی دور جانے کے بعد پھر احسا س ہوا کہ دکاندار نے اتنی آسانی سے اس کی بات مان لی ہے تو دکاندار کو کوئی نہ کوئی فائدہ ہوا ہوگا ۔ وہ پھر دکاندار کے پاس آئی اور کہنے لگی روپیہ تم اپنے پاس رکھو اور اٹھنیاں مجھے دے دو۔ دکاندار نے گا ہگو ں کا رش ہونے کی وجہ سے بحث کرنے کی بجائے خا تون کو روپیہ بھی دے دیا اور اٹھنیاں بھی دے دیں اور کہا کہ یہ دونوں تم رکھو۔ خاتون اٹھنیاں اور روپیہ لے کر واپس تو جا رہی تھی مگر سوچ یہی رہی تھی کہ دکاندار کو کچھ نہ کچھ ضرور بچ گیا ہے ۔
“منی “تو اپنی ڈارلنگ کے لیے بدنام ہوئی تھی اور ڈارلنگ کو اس بات کا احساس بھی تھا کہ “منی” بیچاری میری خاطر بد نام ہو چکی ہے۔ اگر چہ” منی “اتنی بھی “منی” نہیں تھی کہ کسی کی خاطر مفت میں بدنام ہو جاتی لیکن کو رونا کی ویکسین کا نصیب تو “منی” سے بھی گیا گزرا لگتا ہے ۔ ویکسین جن کے فائدے کیلئے بنی ہے وہی اس کے مخالف ہیں۔ کو رونا کی ویکسین بجا طور پر یہ کہہ سکتی ہے “اس گھر کو آگ لگ گئی ، گھر کے چراغ سے”۔ ہمارے ایک شاعر دوست اس فکر میں غلطاں رہتے تھے کہ جو لوگ گھبراہٹ میں یہ کہتے تھے کہ مر جائیں گے لیکن اگر انہیں مر کے بھی چین نہ ملا تو کدھر جائیں گے۔ ایسے ہی پوری عالم انسانیت کو یہ امید تھی کہ ویکسین بن گئی تو معاملہ حل ہو جائے گا لیکن ویکسین سے معاملہ حل ہونے کی بجائے نئی ہل چل میں پڑ گیا ہے۔ الحمد للہ ویکسین مارکیٹ میں ہر وقت دستیاب ہے مگر لوگوں کی ایک کثیر تعداد ویکسین کو ذلیل و خوار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ لوگ ویکسین کے نہیں عقل اور دانش کے دشمن ہیں ۔ یہا ں دانش سے میری مراد مشہور ڈرامے کا ہیرو نہیں بلکہ وہ دانش ہے جس کو حکمت بھی کہا جاتا ہے اور جو مومن کا گم شدہ مال ہے۔ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ عقل کی بات کی ہمیشہ پیروی کریں مگر ہم معقول با ت کے خلاف بات کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور نانوے فیصد علم و دانش کو ایک فیصد شک و شبہات پر فوری قربان کر دیتے ہیں۔ ہمارا طرز فکر غیر سائنسی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر منطقی بھی ہوتا جارہا ہے۔ پہلے ہمارے ہاں دانائی کی بات کرنے والے کی عزت تھی جبکہ آج کل رسوائی کی بات کر نے والے کو فوری سنا جاتا ہے اور اُس کی ہر غیر عقلی بات پر سر دھنا جاتا ہے۔ میری تمام دوستوں سے یہ گزارش ہے اگر ہم عالم انسانیت کی خدمت کیلئے د ن رات ایک نہیں کر سکتے تو ہمیں اُن لوگوں کی مذ مت سے بھی گریز کرنا چاہیئے جن کی کاوشوں کی بر کت سے انسان آج بیماریوں کے خلاف اپنی جنگ میں جیت کے قریب ہے۔ قرآن مجید ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ جو بات ہم نہ جانتے ہوں وہ ہمیں علم والوں سے پوچھنی چاہیئے اور علم والوں کی رائے پرسر تسلیم خم کردینا چاہئے مگر ہم نہ تحقیق کرتے ہیں نہ کسی فضول بات کو پھیلانے سے پہلے تشویش لاحق ہوتی ہے۔ سنی سنائی بات بغیر تحقیق و تصدیق کے آگے پھیلا نا بہت بڑا گناہ ہے۔ ہمیں گناہ اور کو رونا کے خلاف جنگ کرنی چاہئے نہ کہ ویکسین اور ویکسین بنانے والوں کے خلاف۔