خاندانی جبر اور آنر کلنگ: ہمارے معاشرے کا کڑوا سچ

[post-views]
[post-views]

پاکستانی معاشرہ روایتی اقدار، مذہبی حساسیت اور خاندانی غیرت کے مضبوط تصورات پر قائم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہی اقدار بعض اوقات تشدد، ظلم اور ناانصافی کا جواز بن جاتی ہیں، خاص طور پر خواتین کے خلاف۔ حالیہ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا جس میں ایک باپ نے محض اس وجہ سے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا کہ وہ ٹک ٹاک استعمال کرتی تھی۔ اسے “غیرت کے نام پر قتل” کا نام دیا گیا—ایک ایسا عمل جو قانوناً جرم ہے، مگر سماج کے ایک طبقے میں اب بھی قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔

غیرت: عزت یا جبر؟

“غیرت” کا لفظ ہمارے معاشرے میں عورت کے طرزِ عمل سے منسلک کر دیا گیا ہے، جبکہ مرد کو اس غیرت کا محافظ قرار دیا جاتا ہے۔ کسی لڑکی کا اپنے طور پر زندگی کے فیصلے کرنا، سوشل میڈیا کا استعمال، یا مرضی سے شادی کی خواہش—یہ سب بعض خاندانوں میں غیرت پر حرف سمجھا جاتا ہے۔ اور یہی سوچ ایک بےگناہ زندگی کو ختم کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔

آنر کلنگ کے اعداد و شمار

پاکستان میں ہر سال تقریباً 1,000 خواتین غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں، مگر یہ صرف رجسٹرڈ کیس ہیں۔ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کئی کیسز خاندانوں کے دباؤ یا سماجی بدنامی کے خوف سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ غیرت کے نام پر قتل میں اکثر قاتل کوئی اجنبی نہیں ہوتا بلکہ قریبی رشتہ دار—باپ، بھائی یا چچا ہوتا ہے۔ اور پھر صلح، دیت اور خاندانی دباؤ کے ذریعے یہ قتل قانونی سزا سے بھی بچ جاتے ہیں۔

خاندانی تشدد: خاموش المیہ

آنر کلنگ، خاندانی تشدد کی صرف ایک شکل ہے۔ نفسیاتی، جسمانی، مالی اور زبانی تشدد بھی گھروں کے اندر روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں عورتوں کی زندگیوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ کئی عورتیں صبر، بدنامی کے خوف یا معاشی انحصار کی وجہ سے خاموشی اختیار کرتی ہیں۔ یہ خاموشی دراصل ان مجرموں کی حوصلہ افزائی بن جاتی ہے جو اس نظام کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔

قانون ناکافی کیوں؟

اگرچہ پاکستان میں “آنر کلنگ” کے خلاف قانون سازی ہو چکی ہے، جیسے 2016 کا قانون جو معافی یا دیت کے راستے بند کرتا ہے، لیکن ان قوانین پر عملدرآمد کمزور ہے۔ پولیس، عدلیہ اور دیگر ادارے اکثر سماجی دباؤ، سیاسی مداخلت یا رشوت کے باعث اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا نہیں کرتے۔

حل: شعور، تعلیم اور انصاف

اس مسئلے کا مستقل حل صرف قانون نہیں بلکہ سماجی رویوں میں تبدیلی ہے۔ تعلیم، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کے حقوق اور انسانی برابری کے حوالے سے شعور بیدار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ میڈیا، تعلیمی ادارے، علما، اور سول سوسائٹی مل کر ایسے مسائل پر بات کریں، تاکہ “غیرت” کے اصل معنی کو سمجھا جا سکے اور اسے تشدد کے جواز کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے۔

اختتامیہ

آنر کلنگ درحقیقت نہ تو غیرت ہے، نہ ہی عزت، بلکہ یہ بزدلی، پسماندگی اور ظلم کی ایک شکل ہے۔ جب تک ہم ان اقدار کو چیلنج نہیں کریں گے جو عورت کو ایک “خاندانی شے” سمجھتی ہیں، تب تک ہر سال ہزاروں بچیاں، بہنیں اور مائیں بےآواز ماری جاتی رہیں گی۔ ہمیں اپنے ضمیر، اپنی سوچ اور اپنے نظام کو جگانا ہوگا—تبھی ہم ایک مہذب اور محفوظ معاشرہ قائم کر سکیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos