جگر آزاد طبیعت کے مالک اور حُسن پرست تھے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ جگر کو اپنے عہد وہ شہرت اور مقبولیت ملی جو بہت کم شاعروں کو نصیب ہوئی۔ اس میں ان کی رنگا رنگ شخصیت کے ساتھ ان کے رنگِ تغزّل اور ترنم کا بڑا دخل ہے۔ کئی شعرا نے جگر کا طرزِ شاعری اپنانے اور ان کے ترنّم کی نقل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس مقام و مرتبے کو نہ پہنچ سکے جو جگر کا خاصّہ تھا۔
جگر مراد آبادی کا اصل نام علی سکندر تھا۔ 6 اپریل 1890ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر اور مقامی مکتب میں ہوئی، جہاں اردو اور فارسی کے علاوہ عربی بھی سیکھی۔ رسمی تعلیم میں دھیان نہ تھا، سو اسے ادھورا چھوڑ دیا۔ شاعری ورثے میں ملی تھی، کیوں کہ ان کے والد اور چچا شاعر تھے۔ جگر نے اصغر گونڈوی کی صحبت اختیار کی اور بعد میں شعروسخن کی دنیا میں نام و مقام بنایا۔
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں
یا رب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاً
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں
اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں کوئی نقش قدم نہیں
ملتا ہے کیوں مزہ ستم روزگار میں
تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں
مرگ جگرؔ پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.