محمد زبیر
انسانی دماغ ایک عجیب کارخانہ ہے جہاں حقیقت کے بجائے اکثر سہولت اور سکون کے فسانے گھڑے جاتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات لیون فیس ٹنگر نے اسی کارخانے کی کھوج لگائی اور یہ دریافت کیا کہ انسان کی سب سے بڑی دشمنی دراصل اس کی اپنی تضاد سے ہوتی ہے۔ جب عقائد، اعمال یا خواہشات آپس میں ٹکرا جائیں تو اندر ایک خاموش زلزلہ برپا ہوتا ہے۔ اسی کیفیت کو فکری کھچاؤ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس اضطراب سے بچنے کے لیے انسان فوراً جواز کا پل بنا لیتا ہے۔ یہ پل کبھی منطق کے پتھروں سے بنایا جاتا ہے، کبھی خود فریبی کی مٹی سے اور کبھی خوابوں کے دھاگوں سے۔ حقیقت کے تیز دھار دریا پر بانس کا عارضی پل ڈال کر انسان خود کو یہ یقین دلا لیتا ہے کہ وہ محفوظ ہے۔
ریپبلک پالیسی ویب سائٹ ملاحظہ کریں
مثال کے طور پر ایک سگریٹ نوش جانتا ہے کہ وہ زہر پی رہا ہے، مگر جب عادت اور علم ٹکراتے ہیں تو وہ یہ کہہ کر خود کو بہلاتا ہے کہ فلاں شخص نوے برس جیا اور روزانہ دس سگریٹ پیتا تھا۔ اس طرح سگریٹ کے خطرے کو معمولی بنا دینا پہلا جواز ہے۔ اسی طرح ایک عاشق جانتا ہے کہ اس کی محبوبہ نے ہر اخلاقی حد توڑ دی ہے، مگر جب دوست سمجھاتے ہیں تو کہتا ہے: “تمہیں کیا پتا؟ تم نے کبھی محبت کی ہی نہیں۔” یوں حقیقت سے آنکھیں بند کر کے اضطراب کم کیا جاتا ہے۔
ریپبلک پالیسی یوٹیوب پر فالو کریں
یہی نفسیات مذہبی، سیاسی اور سماجی شعبوں میں بھی کام کرتی ہے۔ ایک مذہبی رہنما دولت کے انبار پر بیٹھ کر سادگی کا درس دیتا ہے۔ ضمیر جب احتجاج کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: “یہ سب خدا کی امانت ہے، میں محض اس کا امین ہوں۔” اس طرح ایمان کو ہی جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ جعلی صوفی کہتے ہیں کہ ہمیں شریعت کی ظاہری پابندی کی ضرورت نہیں، ہم تو ہر وقت عبادت میں ہیں۔ یوں عمل کی کمی کو روحانی استثنا بنا دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف کچھ سخت گیر گروہ اصلی صوفیوں کو بھی جعلی کہہ کر رد کر دیتے ہیں تاکہ اپنے نظریاتی دائرے کو نہ توڑنا پڑے۔
ریپبلک پالیسی ٹوئٹر پر فالو کریں
فیس ٹنگر کے مطابق جواز دینا انسان کے بقا کی جنگ ہے۔ ہم جب غلط لیڈر کو ووٹ دیتے ہیں تو کہتے ہیں: “سب ایک جیسے ہیں!” مہنگائی کے دوران خریداری کرتے وقت کہتے ہیں: “ویسے بھی ایک دن مرنا ہے!” نماز چھوڑتے وقت کہتے ہیں: “دل صاف ہونا چاہیے!” اس طرح ہم ذمہ داری سے بھاگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ خود فریبی بری ہے؟ شاید نہیں۔ یہ ایک حفاظتی عمل ہے۔ اگر انسان ہر تضاد کو کھول دے تو پاگل ہو جائے۔ جیسے ملاح ہوا کے مخالف جہاز نہیں چلاتا بلکہ زاویہ بدل لیتا ہے، ویسے ہی انسان بھی اپنے خیالات کا زاویہ بدل لیتا ہے تاکہ زندگی کی کشتی چلتی رہے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ عارضی پل سچائی کی مستقل قبر بن جائے۔
ریپبلک پالیسی فیس بک پر فالو کریں
تاریخ بھی ایسی مثالوں سے بھری ہے۔ اینڈریو کارنیگی نے سرمایہ داری کے تضادات کو چھپانے کے لیے اپنی دولت کو عوامی خدمت کا نام دیا۔ ہمارے معاشروں میں بھی سیاست دان ذاتی مفاد کو قومی خدمت کے لبادے میں چھپاتے ہیں۔ انسانی دماغ کی کرشمہ سازی یہ ہے کہ وہ تضاد کو جواز کے رنگوں سے ڈھانپ کر خوشگوار تصویر بنا دیتا ہے۔ مگر جب یہ جواز سچائی سے فرار کا ذریعہ بن جائے تو یہی پل روح کی قید بن جاتا ہے۔
ریپبلک پالیسی ٹک ٹاک پر فالو کریں
فیس ٹنگر ہمیں دعوت دیتا ہے کہ اپنے جواز کے جال کو پہچانیں۔ خود سے پوچھیں: میں جو سوچ رہا ہوں کیا یہ حقیقت ہے یا دل کا بہانہ؟ انسان کی سب سے بڑی جنگ خود اپنے ساتھ ہے اور اس جنگ میں جواز سب سے طاقتور مگر دو دھاری ہتھیار ہے۔ ہمارے علمی اور مذہبی مباحث میں ایک واضح رجحان ہے کہ ہر مکتبِ فکر اپنے ہی دائرے میں اس قدر جواز تراشتا ہے کہ اصل مقصد یعنی حقیقت تک پہنچنا پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
ریپبلک پالیسی ویب سائٹ ملاحظہ کریں
جوازاتی نفسیات کے تحت انسان اپنے خیالات، عقائد یا اعمال کو کسی نہ کسی دلیل سے درست ثابت کرتا ہے، چاہے وہ دلیل حقیقت سے کتنی ہی دور کیوں نہ ہو۔ یہ عمل وقتی سکون دیتا ہے لیکن طویل المدت میں جمود اور فکری زوال کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے تمام فکری مکاتب اسی جواز کے اسیر ہیں۔ کوئی اپنے فتووں کو حرفِ آخر سمجھتا ہے اور باقی سب کو غلط قرار دیتا ہے۔ کوئی اپنے بیانیے کو توحید پر، کوئی عشق پر اور کوئی عمل پر قائم کرتا ہے، مگر سب اپنی اپنی گولائی میں پھنسے رہتے ہیں۔
ریپبلک پالیسی یوٹیوب پر فالو کریں
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مکالمہ، تحقیق اور وسعتِ نظر کمزور پڑ جاتی ہے۔ اختلافی رائے کو برداشت کرنے اور نئے دلائل سننے کی ہمت ختم ہو جاتی ہے۔ افراد اور معاشرے ایک ایسے دائرے میں قید ہو جاتے ہیں جس سے باہر آنے کے لیے سب سے پہلے اپنی جوازاتی نفسیات کو پہچاننا اور اس پر قابو پانا ضروری ہے۔













