پاکستان کی نئی صنعتی پالیسی: دس سالہ قرض، ٹیکس میں کمی، اور بیمار صنعتوں کی بحالی کا منصوبہ

[post-views]
[post-views]

حکومتِ پاکستان نے جمعہ کے روز ایک جامع اور طویل المدتی صنعتی پالیسی کو حتمی شکل دے دی ہے، جس کے تحت صنعتی یونٹس کو دس سالہ قرضے دو سالہ رعایتی مدت کے ساتھ دیے جائیں گے۔ اس پالیسی کا مقصد ملک میں صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دینا اور بیمار صنعتوں کو دوبارہ فعال بنانا ہے۔

وزیراعظم کی صنعتی پالیسی کمیٹی کا اعلیٰ سطحی اجلاس وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان کی زیرِ صدارت منعقد ہوا، جس میں آٹھ ذیلی کمیٹیوں کی سفارشات کا جائزہ لیا گیا اور انہیں حتمی شکل دی گئی۔

پالیسی کے مطابق، کارپوریٹ ٹیکس کو تین سال میں 29 فیصد سے کم کر کے 26 فیصد تک لایا جائے گا۔ اس کے علاوہ، سی کیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن ایکٹ، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ اور انکم ٹیکس آرڈیننس میں اہم ترامیم کی سفارشات بھی شامل ہیں۔

قرضہ جات کی فراہمی کے لیے صنعتوں کو چار زمروں میں تقسیم کیا جائے گا، جن میں فعال، نیم فعال اور بیرونی مدد کے متقاضی یونٹس شامل ہیں۔ قرضے کی شرح سود، واپسی کی صلاحیت اور پالیسی ریٹ کے مطابق طے کی جائے گی۔ نئے کام کے لیے 20 فیصد تک ورکنگ کیپی ٹل بھی فراہم کیا جائے گا۔

پالیسی کے تحت، 60 فیصد تک اصل قرضہ معاف کرنے کی اجازت دی گئی ہے، بشرطیکہ بورڈ کی منظوری حاصل ہو۔ معاف شدہ رقم کو “شیڈو انٹری” کے طور پر ریکارڈ کیا جائے گا تاکہ آڈٹ یا مالیاتی رپورٹ میں مسئلہ نہ ہو۔ بقیہ قرض کو “ری اسٹرکچرڈ مگر ایکٹیو” کے طور پر ظاہر کیا جائے گا۔

ادائیگی کے لیے فل اینڈ فائنل سیٹل منٹ کی ایک بار اجازت ہوگی، جو کہ ایک ساتھ یا 12 سے 24 ماہ میں اقساط کی صورت میں کی جا سکتی ہے۔ معاف شدہ رقوم انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت ٹیکس چھوٹ کے لیے اہل ہوں گی۔

بینکوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ہر ری اسٹرکچرنگ کیس کو بورڈ کی ذیلی کمیٹی کے سامنے پیش کریں۔ سرکاری بینکوں کو نادہندہ قرضوں کے حل کے لیے سالانہ اہداف مقرر کرنا ہوں گے، جن سے متعلقہ افسران کی بونس یا فیس مشروط ہوگی۔

شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے 10 کروڑ روپے تک کے قرضوں کے لیے تھرڈ پارٹی مناسب تحقیق لازمی قرار دی گئی ہے۔ چارٹرڈ اکاؤن ٹنسی فرمیں یا مالیاتی ادارے اس تصدیق کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ اسٹیٹ بینک ہر ماہ صوبہ وار اور شعبہ وار رپورٹنگ کے لیے ایک پورٹل بھی متعارف کروائے گا۔

پالیسی میں ایک وِسل بلوئر چی نل بھی شامل ہے جس کے ذریعے بدعنوانی یا غیر شفاف معاملات کی رپورٹنگ کی جا سکے گی۔ ہر بحال شدہ یونٹ کی دو سال تک نگرانی کی جائے گی اور وزارتِ صنعت و پیداوار کو سہ ماہی رپورٹس بھیجی جائیں گی۔

ہارون اختر خان نے بتایا کہ 1996 میں جی ڈی پی میں صنعتی شعبے کا حصہ 26 فیصد تھا جو 2025 میں گھٹ کر 18 فیصد رہ گیا ہے۔ انہوں نے صنعتوں کی بحالی، برآمدات کے فروغ، اور درآمدی متبادل کی تیاری کو قومی معیشت کی بقا کے لیے ناگزیر قرار دیا۔

آٹھ ذیلی کمیٹیوں نے اس پالیسی کے لیے اسٹیٹ بینک کی رہنمائی، بیمار صنعتوں کی بحالی اور کارپوریٹ ری ہیب لی ٹیشن ایکٹ 2018 میں ترامیم جیسے اہم نکات تجویز کیے۔ بینکوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پریشان حال صنعتوں کی پیشگی نشاندہی کے لیے پیش گوئی کے اوزار استعمال کریں۔

عمل درآمد کو تیز تر بنانے کے لیے دس نئی سب کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جنہیں ایک ہفتے میں نتائج پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ہارون اختر خان نے اس پالیسی کو ممکنہ “صنعتی انقلاب” قرار دیا اور بتایا کہ سفارشات وزیر اعظم شہباز شریف کو پیش کر دی گئی ہیں، جنہوں نے ان کی تعریف کی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos