پاکستان آج انسانی حقوق کا عالمی دن منا رہا ہے۔ پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ایک پریشان کن منظر کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے 140 ممالک کی فہرست میں سے پاکستان کا 123 واں نمبر ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی حقوق کے اداروں نے مسلسل ملک کے ابتر ریکارڈ کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔
آئینی ضمانتوں کے باوجود، بہت سے پاکستانیوں کو عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ جبری گمشدگیوں کو اختلاف رائے کے خلاف ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا خاص طور پر تشویشناک ہے۔ کم از کم 2,210 غیر حل شدہ مقدمات کے ساتھ، ان گمشدگیوں میں ریاست کا کردار جبر کی تصویر کشی کرتا ہے۔
بار بار کی کوششوں کے باوجود جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے والی قانون سازی میں ناکامی اعلیٰ سطح پر سیاسی مرضی کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ صحافیوں نفیس نعیم، ارسلان خان، عمران ریاض اور بلوچ طالب علم امداد کے مقدمات، جنہیں اغوا کیا گیا اور بعد میں چھوڑ دیا گیا تھا، تنقید کے ایک پریشان کن رجحان کو جنم دیتا ہے۔
کچھ پیش رفت ہوئی، صحافیوں کے لیے حفاظتی قوانین سب سے پہلے سندھ اسمبلی اور اس کے بعد قومی اسمبلی نے 2021 کے آخر میں پاس کیے، لیکن ان کا نفاذ ایک خواب ہی رہا۔ اجتماع اور اظہار رائے کی آزادی کو ختم کرنا تشویش کا باعث ہے۔ پرامن مظاہروں کو منتشر کرنے کے لیے حکام کی جانب سے طاقت کا استعمال، اور مظاہرین کو دھمکانا اور من مانی حراست، یہ سب شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مذہبی عدم رواداری تشدد کو بھڑکا رہی ہے، توہین مذہب کے الزامات کے نتیجے میں اقلیتوں اور مسلمانوں دونوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کے خلاف سپریم کورٹ کی تنبیہات خوش آئند ہیں، لیکن سماجی تعصبات سے کمزوروں کو بچانے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
خواتین کے خلاف تشدد اب بھی ایک وسیع مسئلہ ہے۔ جہاں نورمقدم کے قتل کے لیے ظاہر جعفر کو سزا سنانا ایک اہم قدم ہے، وہیں صنفی بنیاد پر تشدد کے وسیع تر مسئلے سے نمٹنے کے لیے نظامی تبدیلیاں بہت ضروری ہیں۔ گھریلو تشدد کے بل کا نفاذ نہ ہونا ریاست کی خواتین کے حقوق کو برقرار رکھنے میں ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
قانونی شناخت کے باوجود خواجہ سراؤں کے حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ٹرانس جنڈر رائٹس ایکٹ کو چیلنج اور اس کمیونٹی کے خلاف مسلسل تشدد گہرے سماجی اور ادارہ جاتی تعصبات کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹارچر اور کسٹوڈیل ایکٹ کی منظوری ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن اس کے نفاذ کی سخت ضرورت ہے۔
انسانی حقوق کا یہ تاریک منظر ملک کے جمہوری تانے بانے کو متاثر کرنے والی گہری بے چینی کا عکاس ہے۔ جمہوری عمل میں ہیرا پھیری، سیاسی زندگی پر مقتدر حلقوں کا سایہ، اور انصاف کا انتخابی اطلاق یہ سب ایک ایسے ماحول میں حصہ ڈالتے ہیں جہاں انسانی حقوق کو آسانی سے پامال کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ پاکستان قومی انتخابات کی تیاری کر رہا ہے، یہ ضروری ہے کہ ان مسائل کو سامنے لایا جائے۔ انسانی حقوق کا تحفظ صرف ایک اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ایک مستحکم اور فعال جمہوریت کی شرط ہے۔ انسانی حقوق کے اس دن پر، پاکستان کو صرف بیان بازی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں۔