تحریک انصاف کا راستہ: جلسوں سے پارلیمان تک

[post-views]
[post-views]

تحریر: مبشر ندیم

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سیاسی سفر پر گہری نظر ڈالیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جماعت کی شناخت ایک احتجاجی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ تاہم، مئی 9 کے واقعات اور ان کے بعد ریاستی ردِعمل نے محض جماعت کے سیاسی مستقبل ہی کو نہیں بلکہ پورے جمہوری بیانیے کو چیلنج کر دیا ہے۔ عدالتی فیصلوں کا تسلسل، خاص طور پر انسدادِ دہشتگردی کی عدالت کی جانب سے ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ، میاں محمود الرشید اور دیگر کو دس دس سال قید کی سزائیں دینا، صرف قانون کا اطلاق نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام بھی ہے۔

یہ فیصلے اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ معاملہ محض احتجاج سے آگے نکل چکا ہے۔ اب پی ٹی آئی کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ کیا صرف احتجاجی سیاست سے وہ اپنی سیاسی بقا ممکن بنا سکتی ہے یا اسے قانونی، ادارہ جاتی اور فکری میدان میں بھی متحرک ہونا پڑے گا؟

عدالتی فیصلے اور ان کا پس منظر

9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام میں گرفتار درجنوں افراد کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں۔ ابتدا میں توقع کی جا رہی تھی کہ صرف نچلی سطح کے کارکنان پر مقدمات ہوں گے، لیکن جلد ہی اس کی لپیٹ میں مرکزی قیادت بھی آ گئی۔ عدالت نے حال ہی میں جن ممتاز رہنماؤں کو دس دس سال قید کی سزائیں سنائیں، ان میں یاسمین راشد جیسی محترم شخصیت بھی شامل ہیں، جو ایک ماہرِ امراض نسواں اور سابق وزیر صحت کے طور پر جانی جاتی ہیں۔

عدالتی فیصلوں میں ان افراد کو “منصوبہ بندی”، “اکسانے” اور “ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیزی” جیسے الزامات کے تحت سزا دی گئی۔ اگرچہ ان فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کی جا سکتی ہے، لیکن ان کے سیاسی اور نفسیاتی اثرات غیر معمولی ہیں۔

احتجاج سے آگے کیا؟

پی ٹی آئی کی اب تک کی حکمتِ عملی سڑکوں پر احتجاج، بیانیے کی تشکیل اور عوامی رابطے پر مرکوز رہی ہے۔ مگر ریاستی ردعمل اور قانونی گرفت اتنی سخت ہو چکی ہے کہ صرف احتجاج سے جماعت اپنی موجودگی برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ریاست نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ “ریڈ لائنز” کو عبور کرنے کی قیمت چکانی ہو گی، اور اب یہ فیصلہ صرف عوامی مقبولیت سے واپس نہیں لیا جا سکتا۔

اس لیے پی ٹی آئی کو ایک نیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا—ایک ایسا راستہ جو قانونی موشگافیوں، آئینی عمل داری، اور ادارہ جاتی اصلاحات پر مبنی ہو۔ احتجاجی تحریک سے زیادہ مؤثر راستہ آئینی اداروں میں واپسی اور پارلیمانی جدوجہد بن سکتا ہے۔

سیاسی بیانیہ کی تطہیر

پی ٹی آئی کا بیانیہ جو کہ انصاف، احتساب اور خودداری کے گرد گھومتا تھا، اب مختلف سوالات کی زد میں ہے۔ کیا یہ بیانیہ اب بھی عوامی جذبات کو مجتمع کر سکتا ہے؟ کیا جماعت اپنے اس بیانیے کو قانونی، اخلاقی اور جمہوری دائرے میں ازسرِنو پیش کر سکتی ہے؟ یا پھر اسے اپنے رویے، لب و لہجے اور حکمتِ عملی میں تبدیلی لا کر ایک متوازن بیانیہ تشکیل دینا ہو گا؟

جذباتی اندازِ سیاست، دشمن و مؤید کے درمیان سخت لکیر، اور ادارہ دشمنی کے تاثر نے پی ٹی آئی کو ریاست کے اداروں سے دُور کر دیا ہے۔ یہ خلیج اگر مزید بڑھی، تو جماعت صرف عوامی جذبات کے بل بوتے پر زندہ نہ رہ سکے گی۔ اب ضرورت ہے کہ ایک تدبر آمیز، شائستہ، اور حل پر مبنی سیاسی بیانیہ سامنے لایا جائے۔

عدالتی میدان میں حکمت عملی

عدالت کا حالیہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ قانونی محاذ کو سنجیدہ لینا اب پی ٹی آئی کی مجبوری بن چکا ہے۔ ماضی میں جماعت عدالتوں کو یا تو نظر انداز کرتی رہی یا ان پر تنقید کرتی رہی۔ اب وقت ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں باقاعدہ، مؤثر اور تکنیکی بنیادوں پر دفاع پیش کیا جائے۔ بہترین قانونی ٹیموں، شواہد، گواہیوں اور آئینی نکات کے ذریعے یہ ثابت کیا جائے کہ ان سزاؤں میں سیاسی عنصر غالب ہے۔

اگر عدالتی محاذ پر سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو ایک ایک کر کے مرکزی قیادت غیر مؤثر ہوتی جائے گی، اور جماعت کا بوجھ چند افراد کے کندھوں پر آ جائے گا۔

مستقبل کا راستہ: احتجاج + ادارہ جاتی بحالی

پی ٹی آئی کو اب “احتجاجی” شناخت سے نکل کر “ادارہ جاتی” شناخت اپنانی ہو گی۔ سول سوسائٹی، وکلا برادری، صحافی، اساتذہ، طلبہ اور کاروباری طبقے کو ساتھ ملا کر سیاسی مکالمے کی نئی فضا قائم کرنا ہو گی۔ انتخابات کے لیے تیاری، پالیسی سازی پر توجہ، اور نوجوان قیادت کی تربیت—یہ سب اگلے مرحلے کی ضرورتیں ہیں۔

پارلیمان، عدالت، اور میڈیا کے ساتھ ادارہ جاتی روابط کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت دیرپا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔

نتیجہ: سیاسی بقاء احتجاج سے نہیں، ادارہ سازی سے

تحریکِ انصاف کی بقاء کی جنگ اب صرف نعروں اور جلسوں سے جیتی نہیں جا سکتی۔ اب وہ مرحلہ آ گیا ہے جہاں ہر قدم سو بار سوچ کر اٹھانا ہو گا۔ عدالتوں کے فیصلے محض قانونی نہیں، سیاسی اشارے بھی ہوتے ہیں۔ اگر ان فیصلوں کو نظرانداز کیا گیا، تو وقت خود اس جماعت کو تاریخ کے حاشیے پر لے جائے گا۔

احتجاج ایک آلہ ہے، منزل نہیں۔ منزل وہ ہے جہاں سیاسی تدبر، قانونی حکمت، اور عوامی شعور ایک ساتھ چلیں۔ اگر پی ٹی آئی نے وقت کی آواز نہ سنی تو وقت خود اس سے روٹھ جائے گا—اور تاریخ میں وہ جماعتیں ہی زندہ رہتی ہیں جو وقت کے ساتھ سیکھتی اور بدلتی ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos