Premium Content

انتخابات کے لیے نئی مردم شماری کی اہمیت

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: رمضان شیخ

        مشترکہ مفادات کونسل نے نئی مردم شماری کی منظوری دے دی ہے۔ وزارتِ منصوبہ بندی و ترقی کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ 14لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق 2023ء کی مردم شماری کے تحت پنجاب کی آبادی 12کروڑ 76 لاکھ، سندھ کی ساڑھے پانچ کروڑ، خیبرپختونخوا کی لگ بھگ چار کروڑ جبکہ بلوچستان کی آبادی قریباً ڈیڑھ کروڑ اور اسلام آباد کی آبادی 23 لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی دیہی آبادی 61.18 فیصد جبکہ شہری آبادی 38.82 فیصد ہے۔ پنجاب کی 59.30 فیصد آبادی دیہی اور 40.70 فیصد شہری، سندھ کی 46.27 فیصدآبادی دیہی اور 53.7 فیصد شہری، خیبر پختونخوا کی 84.99 فیصد آبادی دیہی اور 15.01 فیصد شہری جبکہ بلوچستان کی 69.04 فیصد آبادی دیہی اور 30.96 فیصد آبادی شہری ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی 53.10 فیصد آبادی دیہی جبکہ 46.90 فیصد آبادی شہری ہے۔ پاکستان کی آبادی کی شرح لگ بھگ ڈھائی فیصد سالانہ سے بڑھ رہی ہے جبکہ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں یہ شرح ایک فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت عام انتخابات (نئی) شائع کی گئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے، اب یہ الیکشن کمیشن پر منحصر ہے کہ وہ حلقہ بندیوں کا عمل کتنی جلدی مکمل کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج سے نشستوں کی تقسیم پر اثر نہیں پڑے گا، تمام اسمبلیوں کی نشستیں وہی رہیں گی، اِن میں کسی قسم کا کوئی رد و بدل نہیں ہو گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں تمام آٹھ ممبران نے متفقہ طور پر نئی مردم شماری کی منظوری دی ہے۔ ان کے مطابق اِس فیصلے سے قبل آئینی بحرانی کیفیت تھی تاہم اب یہ دور ہو چکی ہے،حلقہ بندیوں کا عمل چار ماہ میں مکمل کرنا ہوتا ہے، اور اِس وجہ سے اگر الیکشن میں التوا ہوا تو نگران حکومت کو کسی آئینی کور کی ضرورت نہیں ہوگی، آئین کا آرٹیکل 254 کہتا ہے انتخابات کو آگے کیا جا سکتا ہے، الیکشن کرانا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے اور جب تک الیکشن نہیں ہوتے نگران سیٹ اپ رہے گا۔

        واضح رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپریل 2021ء میں ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہی کرانے کی منظوری دی تھی اوراتحادی حکومت نے ایک طرح سے گزشتہ حکومت کے فیصلے کی ہی توثیق کی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے چند روز قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں گے جس کے بعد بحث چھڑ گئی تھی اگر انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہونے ہیں تو پھر شاید 90 دن کا وقت کم ہو اور انتخابات کی تاریخ میں توسیع کرنا پڑے، اب چونکہ نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کا فیصلہ ہو چکا ہے اِس لیے انتخابات میں تاخیر کے امکانات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔

امریکی جریدے بلوم برگ نے بھی یہی امکان ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات اگلے سال تک مؤخر ہوسکتے ہیں۔ جریدے نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ نئی مردم شماری کے مطابق گزشتہ چھ سال میں پاکستان کی آبادی میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے، الیکشن کمیشن کو نئے ووٹرز کو شامل کر کے حلقہ بندیوں کی نئی لسٹیں بنانا ہوں گی۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن قانونی طور پر نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابند ہو گیا ہے، یہ آئینی تقاضہ ہے تاہم 90 دن میں حلقہ بندیاں کرنا ممکن نہیں اِس لیے عام انتخابات کم ازکم 15 فروری 2024ء تک تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کو آئینی مدت کے علاوہ بھی حلقہ بندیوں اور دیگر معاملات حل کرنے کے لیے اضافی تین ماہ درکار ہوں گے۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

مردم شماری کی حتمی اشاعت کے بعد الیکشن کمیشن نئے سرے سے حلقہ بندی کرنے کے لیے اسلام آباد سمیت تمام صوبوں کے لیے حلقہ بندی کمیٹیاں قائم کرتا ہے، قومی اسمبلی کے 266 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے 593 حلقے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ بندیوں کے لیے شیڈول کے اعلان کے بعد کوئی نیا انتظامی یونٹ نہیں بنایا جا سکے گا، اِس اعلان کے بعد 15 روز کے اندر اندر انتظامی انتظامات مکمل کرنا ہوں گے جن میں متعلقہ محکمہ ریونیو سے تحصیل اور ضلعوں کے نقشہ جات اور ضروری ڈیٹا لینا شامل ہے۔ ضلعی مردم شماری کی رپورٹ اور آبادی کے بلاک سائز سمیت ڈیٹا کمیٹی کو فراہم کرنے کے علاوہ حلقہ بندی کمیٹی کو پانچ روز کی تربیت بھی دی جائے گی۔ اِسی دوران کمیٹیوں کو صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کا ضلعی کوٹہ فراہم کر دیا جائے گا۔ حلقہ بندی کمیٹیاں 30 روز کے اندر ابتدائی کام مکمل کریں گی جس کے بعد چار دن کے اندر اندر حلقہ بندیوں کی ابتدائی اشاعت کر دی جائے گی، اعتراضات 30 روز کے اندر الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جا سکیں گے اور الیکشن کمیشن مزید 30 روز کے اندر اعتراضات کی سماعت کر کے فیصلہ سنائے گا، اعتراضات ختم کرنے کے بعد تقریباً تین سے چار روز میں حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت کر دی جائے گی۔ حلقہ بندیوں کے لیے ملک کو آبادی اور جغرافیائی لحاظ سے انتخابی حلقہ جات میں تقسیم کیا جاتا ہے،کسی بھی حلقے میں آبادی کا فرق 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ حلقہ بندی کے بعد الیکشن کمیشن ووٹر لسٹوں کا کام مکمل کر کے انہیں منجمد کر دیتا ہے جس کے بعد الیکشن شیڈول کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے تو 60 دن جبکہ قبل از وقت تحلیل کی صورت میں 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں،الیکشن کمیشن نے گزشتہ حلقہ بندیوں کا کام شیڈول کے اعلان کے بعد قریباً چار ماہ میں مکمل کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق موجودہ حالات میں عام انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو چھ سے سات ماہ درکار ہوں گے۔

        دوسری طرف سپریم کورٹ نے جمعتہ المبارک (پانچ اگست) کو 14 مئی 2023ء کو پنجاب اسمبلی میں انتخابات منعقد کروانے سے متعلق مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ انتخابات کا انعقاد کروانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہی نہیں بلکہ ذمہ داری ہے، وہ کسی طور بھی انتخابات کی تاریخ کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔

        خوش آئند بات یہ ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کا فیصلہ اتفاقِ رائے سے کیا گیا ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ آگے بھی تمام معاملات متفقہ طور پر خوش اسلوبی سے طے کر لیے جائیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام قائم ہو سکے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos