طاہر مسعود
دنیا میں امن کا خواب صرف خوبصورت الفاظ یا سفارتی تقاریر سے شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ عالمی امن اس وقت ممکن ہے جب دنیا میں اصولی، غیر جانبدار اور سب کے لیے یکساں انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ موجودہ عالمی حالات، خصوصاً مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت، مغرب کی خاموشی اور دوہرے معیاروں کی بنیاد پر تشکیل دی جانے والی بین الاقوامی پالیسی اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی انصاف کی غیر موجودگی نے دنیا کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔
اسرائیل کا استثنائی رویہ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی اسرائیل کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہ کرنا اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو اپنی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ نہ کرنے دینا ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے۔ اسرائیل، جو دنیا میں خود کو ایک “مظلوم ریاست” کے طور پر پیش کرتا ہے، درحقیقت خطے میں مسلسل جارحیت، قبضے اور نسل کشی جیسے اقدامات میں ملوث ہے۔ اس کی پالیسیاں صرف فلسطین ہی نہیں، بلکہ لبنان، شام، عراق، ایران، اور یہاں تک کہ افریقی ممالک میں بھی واضح طور پر مداخلت اور جنگوں کا سبب بنی ہیں۔
اسرائیل کا یہ جارحانہ رویہ صرف اُسی وقت ممکن ہوا ہے جب عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ اور یورپی ممالک، نے اسے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزیوں کے باوجود نہ صرف اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جاتی، بلکہ اسے ہر فورم پر سیاسی، عسکری اور سفارتی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ وہی مغربی طاقتیں ہیں جنہوں نے عراق اور لیبیا کو محض شک کی بنیاد پر تباہ کیا، اور اب ایران کو بھی ایٹمی ترقی سے روکنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہی ہیں۔
منافقت پر مبنی عالمی نظام مغربی طاقتوں کا منافقانہ رویہ عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ جب ایک ہی قانون کو کچھ ممالک پر لاگو کیا جاتا ہے اور کچھ پر نہیں، تو انصاف کی ساکھ ختم ہو جاتی ہے۔ اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار رکھنے کی کھلی اجازت دینا، جب کہ دیگر مسلم ممالک پر سخت پابندیاں عائد کرنا، اس عالمی نظام کی جانبداری کو عیاں کرتا ہے۔
یہی مغربی ممالک اسلاموفوبیا کو فروغ دے کر مسلمانوں کو عالمی خطرہ بنا کر پیش کرتے ہیں، جب کہ اصل خطرہ ان ریاستوں سے ہے جو بین الاقوامی قوانین کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ فرانس، جرمنی، ہالینڈ اور امریکہ میں اسلامی شعائر اور شناخت کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے، جب کہ انہی ممالک کی پالیسیاں دنیا بھر میں خونریزی، تنازعات اور انتہا پسندی کو ہوا دے رہی ہیں۔
عالمی انصاف کی عدم موجودگی کا نتیجہ: مسلسل جنگیں اور عدم استحکام جہاں کہیں بھی عالمی انصاف کمزور ہوتا ہے، وہاں امن کا قیام ممکن نہیں رہتا۔ عراق پر حملہ، لیبیا میں حکومت کی تبدیلی، شام میں خانہ جنگی، اور افغانستان کی تباہی — یہ سب ان طاقتوں کی پالیسیاں تھیں جنہوں نے “انصاف” اور “جمہوریت” کے نام پر پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا۔
اسرائیل کا مسئلہ فلسطین میں مظالم ہو یا بھارت میں کشمیریوں کے حقوق کی پامالی، مغربی دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ فلسطینیوں، کشمیریوں اور روہنگیا مسلمانوں جیسے مظلوموں کی آواز عالمی عدالتوں میں دب جاتی ہے، کیوں کہ ان کے خلاف ظلم کرنے والے ممالک مغربی حمایت یافتہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں عالمی انصاف کا تصور محض ایک فریب بن کر رہ جاتا ہے۔
بین الاقوامی عدالتی نظام کی اصلاح کیوں ضروری ہے؟ آج کی دنیا کو ایک غیر جانب دار، مؤثر اور اصولی عالمی عدالتی نظام کی اشد ضرورت ہے، جو اقوام متحدہ کے اصولوں، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق تمام اقوام کے لیے یکساں ہو۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف اور دیگر عالمی اداروں کو ایسے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا جو ہر ملک پر برابر طور پر لاگو ہوں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ بڑے طاقتور ممالک بھی خود کو ان اداروں کے تابع تسلیم کریں، اور صرف کمزور ریاستوں کے خلاف ہی کارروائیاں نہ ہوں۔ اگر اسرائیل جیسے ممالک کو بھی اسی قانون کے تحت جواب دہ بنایا جائے جس کے تحت ایران، لیبیا اور دیگر ممالک کو کیا گیا، تو عالمی انصاف کی بحالی ممکن ہے۔
بقائے باہمی، رواداری اور اصولی پالیسی ہی امن کی بنیاد دنیا کو امن کی ضرورت ہے، اور اس کا راستہ انصاف، رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی، اور بقائے باہمی سے گزرتا ہے۔ اگر دنیا کے طاقتور ممالک صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون کو استعمال کرتے رہیں گے، تو کمزور اقوام میں بے چینی، مزاحمت اور انتہا پسندی فروغ پاتی رہے گی۔ انصاف کے بغیر قیامِ امن ممکن نہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو چاہیے کہ وہ عالمی فورمز پر دوہرے معیار کے خلاف آواز بلند کریں، اور ایسی سفارتی حکمت عملی اپنائیں جو عالمی انصاف کے اصولوں پر مبنی ہو۔ امت مسلمہ کو بھی چاہیے کہ وہ فرقہ وارانہ تقسیم سے نکل کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے عالمی نظام میں اصلاحات کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔
نتیجہ دنیا کو اگر واقعی امن کی طرف لے جانا ہے تو بین الاقوامی انصاف کو مقدم بنانا ہوگا۔ اسرائیل کی ایٹمی پالیسی، مغربی دنیا کی دوہری اخلاقی اقدار، اور اسلاموفوبیا جیسے رجحانات نے عالمی نظام کو عدم توازن اور عدم استحکام کا شکار بنا دیا ہے۔ جب تک دنیا میں انصاف سب کے لیے نہیں ہوگا، امن صرف ایک خواب ہی رہے گا۔ انصاف کا قیام ہی وہ بنیاد ہے جس پر پائیدار عالمی امن کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔