اسرائیل کی جارحیت میں امریکہ کا کردار

[post-views]
[post-views]

تہران – ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے تہران میں ایک اہم پریس کانفرنس کے دوران امریکہ پر شدید الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حالیہ حملے امریکی حمایت اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھے۔ ان کے بقول، “ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ امریکی افواج اور ان کے علاقائی اڈے صہیونی ریاست کے حملوں میں براہ راست معاون رہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود تسلیم کیا کہ وہ ان حملوں سے باخبر تھے اور یہ کارروائیاں امریکی ہتھیاروں اور سازوسامان کے بغیر ممکن نہ تھیں۔

ایران اور اسرائیل کے مابین کشیدگی کے حالیہ سلسلے میں یہ الزامات اس وقت سامنے آئے جب اسرائیل نے ایران کے نیوکلیئر، فوجی اور شہری انفراسٹرکچر پر حملے کیے۔ تہران، اصفہان اور بوشہر سمیت کئی شہروں پر حملوں میں اب تک 80 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں سویلین، ایرانی افواج کے اعلیٰ افسران اور جوہری سائنس دان شامل ہیں۔

جواباً ایران نے تل ابیب اور حیفہ پر میزائل اور ڈرون حملے کیے جن میں درجنوں افراد زخمی اور متعدد ہلاک ہوئے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے بتایا کہ ایران کی جوابی کارروائی میں اسرائیل کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ اسرائیلی فوج نے ایران کے ایندھن کے ذخائر اور گیس فیلڈز پر بمباری کی۔

عباس عراقچی نے خبردار کیا کہ اسرائیلی حملے نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ خطے کو ایک وسیع جنگ میں دھکیلنے کی سازش بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، “خلیج فارس کا علاقہ انتہائی حساس اور پیچیدہ ہے، اور یہاں کسی بھی قسم کی عسکری پیش رفت پورے خطے بلکہ دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔”

انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے حملوں کی واضح طور پر مذمت کرے اور ان سے لاتعلقی کا اعلان کرے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ امریکہ امن کا خواہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا، “اگر امریکہ واقعی جوہری ہتھیاروں سے متعلق سنجیدہ ہے تو اسے ایران کے پرامن نیوکلیئر پلانٹ پر حملے کی مذمت کرنی چاہیے۔”

دوسری جانب ایران میں عام زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ دارالحکومت تہران میں سرکاری دفاتر بند، پروازیں معطل، اور اسٹاک ایکسچینج بند کر دی گئی ہے۔ ایرانی کرنسی ریال کی قدر تیزی سے گر گئی ہے اور ملک بھر میں ایندھن و اشیائے ضروریہ کی قلت کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔

ایرانی اخبارات نے اس صورتحال کو “قومی جنگ” قرار دیا ہے۔ قدامت پسند روزنامہ کیہان نے لکھا، “ہم اسرائیل کو ختم کر کے جنگ کا خاتمہ کریں گے”، جبکہ اصلاح پسند اخبار اعتماد نے اسرائیل کی جارحیت کو “تباہ کن جوا” قرار دیا۔

عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ ایران مذاکرات کے دروازے بند نہیں کر رہا، لیکن اسرائیل اگر حملے جاری رکھے گا تو ایران بھی جواب دینا بند نہیں کرے گا۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر مداخلت کرے اور اسرائیل کی کھلی جارحیت کی مذمت کرے۔

ایرانی حکام کے مطابق، موجودہ کشیدگی صرف دو ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی امن اور توانائی کے تحفظ سے جڑا ہوا ایک بحران ہے۔ اگر خلیج فارس میں جنگ بھڑکی، تو اس کے اثرات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos