ادارتی تجزیہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کا اختتام ہوگیا۔ طے شدہ معاہدے کے تحت ایران جنگ بندی کا آغاز کرے گا اور 12 گھنٹے بعد اسرائیل بھی مکمل طور پر لڑائی روک دے گا۔ 24 گھنٹے کی اس جنگ بندی کے بعد باقاعدہ طور پر جنگ کا اختتام تسلیم کیا جائے گا۔
اگرچہ اس اعلان سے عالمی سطح پر سکون کا سانس لیا گیا ہے، مگر یہ صورتحال اقوامِ متحدہ اور عالمی اداروں کی ناکامی کو بھی بے نقاب کرتی ہے، جو اس بحران میں مکمل طور پر غیر مؤثر ثابت ہوئے۔ اس کے برعکس، ٹرمپ کی ذاتی سفارت کاری نے ثابت کیا کہ غیر روایتی ذرائع بھی مؤثر ہو سکتے ہیں۔
اس جنگ نے ایک بار پھر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں، یکطرفہ کارروائیوں اور دوہری عالمی پالیسیوں کو اجاگر کیا۔ اسرائیل کی ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی تھے، جبکہ ایران کا ردعمل، جو امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کی صورت میں آیا، ایک علامتی انتباہ تھا۔
اس دوران غزہ، لبنان اور شام میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں ایک المناک پہلو رہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کارروائیوں کو ممکنہ جنگی جرائم قرار دیا ہے۔
پاکستان نے ایران کی حمایت کر کے ایک اصولی مؤقف اپنایا، جبکہ ایران کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ علاقائی ہمسایوں سے تعلقات بہتر کرے اور معاشی و سفارتی بحالی کی راہ اپنائے۔
یہ جنگ بندی ایک وقتی وقفہ نہیں، بلکہ مستقل امن کی جانب قدم ہونا چاہیے۔ عالمی برادری کو اب قانون، انصاف اور انسانیت کے اصولوں پر مبنی نظام قائم کرنا ہوگا تاکہ آئندہ ایسی تباہی روکی جا سکے۔