ادارتی تجزیہ
اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی کارکنوں، صحافیوں اور وکلاء کے ساتھ مبینہ ظالمانہ سلوک، جنہیں غزہ کی 16 سالہ سمندری ناکہ بندی توڑنے کی کوشش پر گرفتار کیا گیا، نے دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا کے شرکاء کی رپورٹس کے مطابق، قیدیوں کو جنوبی نی گیو کے کیتزیوت جیل میں شدید تشدد، نیند سے محرومی، ذلت آمیز برتاؤ اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیلی حکومت نے ان الزامات کو “بے بنیاد جھوٹ” قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ قیدیوں کے تمام انسانی حقوق کا مکمل خیال رکھا گیا۔
گرفتار شدگان میں اطالوی صحافی، یورپی پارلیمنٹ کے ارکان، اور سویڈن کی کارکن گریٹا تھن برگ بھی شامل تھیں، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں زبردستی اسرائیلی پرچم اٹھانے پر مجبور کیا گیا اور توہین آمیز حالات میں رکھا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، قیدیوں کو بندوقوں کے بٹ سے مارا گیا، فلسطینی نشانات اتار دیے گئے اور کتوں سے حملہ کروایا گیا۔ بارسلونا کی سابق میئر آدا کولو نے کہا، “جب ہم نے ڈاکٹر مانگا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ انسانوں کے لیے ہوتا ہے۔” انہوں نے جیل کو “فاشسٹ ریاست کی قید گاہ” قرار دیا۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیرِ قومی سلامتی اتمار بن گویر نے جیل انتظامیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی کارکردگی پر “فخر” کرتے ہیں اور متنبہ کیا کہ کارکن دوبارہ اسرائیل کے قریب نہ آئیں۔ ان کے اس بیان نے اسرائیل پر بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات کو مزید تقویت دی۔ حتیٰ کہ یونان، جو اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے، نے بھی اپنے شہریوں کے ساتھ بدسلوکی پر سفارتی احتجاج درج کرایا۔
یہ فلوٹیلا 400 سے زائد افراد، بشمول ڈاکٹروں اور وکلاء، پر مشتمل تھی جو غزہ میں انسانی امداد پہنچانا چاہتے تھے۔ تاہم، اس واقعے نے اسرائیل کی طویل ناکہ بندی پر دوبارہ عالمی بحث چھیڑ دی ہے — اور اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا انسانی ہمدردی کی آواز کو خاموش کرنا اخلاقی طور پر درست ہے۔ اب جب ایک نئی امدادی فلوٹیلا ترکی سے روانہ ہو چکی ہے، دنیا دیکھ رہی ہے کہ آیا اسرائیل ایک بار پھر طاقت کے استعمال کا راستہ اپناتا ہے یا بین الاقوامی انسانی قانون کو غالب آنے دیتا ہے۔