اسرائیل بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کا شکار

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

جیسے جیسے غزہ میں جنگ شدت اختیار کر رہی ہے، اسرائیل عالمی سطح پر بتدریج تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ جو ملک کبھی مضبوط اتحادیوں کی ڈھال میں محفوظ تھا، آج اسے سیاسی، معاشی اور ثقافتی دباؤ کا سامنا ہے، بالکل اسی طرح جیسے پابندیوں کے بوجھ نے جنوبی افریقہ کی نسلی امتیاز پر مبنی حکومت کو گرا دیا تھا۔ خود اسرائیل کے اندر بھی سابق وزرائے اعظم ایہود باراک اور ایہود اولمرٹ خبردار کر رہے ہیں کہ نیتن یاہو کی پالیسیاں ملک کو عالمی سطح پر ایک ’مطرود ریاست‘ میں بدل رہی ہیں۔

ویب سائٹ

سفارتی نقصان روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے وارنٹ نے نیتن یاہو کے غیر ملکی دوروں کو محدود کر دیا ہے، اور یورپ کی بڑی ریاستیں—برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور آسٹریلیا—فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ خلیجی ممالک، جو قطر پر اسرائیلی حملے پر برہم ہیں، اجتماعی ردِعمل کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اسی دوران یورپی یونین، جو اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، انتہا پسند وزیروں پر پابندیاں لگانے کی طرف بڑھ رہی ہے جبکہ بااثر سابق یورپی سفارت کار اسرائیل کے ساتھ یورپی یونین کے معاہدے کو معطل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یوٹیوب

علامتی بائیکاٹ بھی اب سامنے آ رہے ہیں۔ جس طرح جنوبی افریقہ کو ثقافتی اور کھیلوں کے میدانوں میں تنہا کیا گیا تھا، ویسا ہی رجحان اسرائیل کے خلاف دکھائی دے رہا ہے۔ اسپین، آئرلینڈ اور نیدرلینڈز جیسے ممالک دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر اسرائیل یوروویژن میں شامل ہوا تو وہ اس کا بائیکاٹ کریں گے، جبکہ شطرنج کے کھلاڑیوں نے یورپی ٹورنامنٹس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ یہ اقدامات اسرائیل کے اس دعوے کو کمزور کرتے ہیں کہ وہ اب بھی عالمی برادری میں ایک معمول کا ملک ہے۔

ٹوئٹر

یورپی پابندیاں دباؤ کو اور گہرا کر رہی ہیں۔ بیلجیم نے مغربی کنارے کی غیر قانونی بستیوں سے درآمدات پر پابندی عائد کر دی ہے، سخت گیر وزیروں پر قدغن لگائی ہے اور آبادکاروں کو قونصلر سہولت دینے سے انکار کیا ہے۔ اسپین نے بھی ہتھیاروں کی ترسیل پر پابندی لگاتے ہوئے اسرائیل کے لیے اسلحے کی برآمد روک دی ہے۔ یہ سب اقدامات یورپ کی بڑھتی ہوئی بے صبری کو ظاہر کرتے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب غزہ میں بھوک و افلاس کی تصاویر دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔

فیس بک

نیتن یاہو کا ردعمل جارحانہ ہے۔ وہ پابندیوں کو یہودی دشمنی قرار دیتے ہیں اور اسرائیل پر زور دیتے ہیں کہ غیر ملکی تجارت پر انحصار کم کرے۔ لیکن جب وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسرائیل “کسی حد تک معاشی تنہائی” کا شکار ہے، تو یہ بحران کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے۔ جیسے جیسے غزہ کی تباہی بڑھتی جا رہی ہے اور عرب ممالک فلسطین کے ساتھ متحد ہو رہے ہیں، اسرائیل ایک اہم سوال کے سامنے کھڑا ہے: کیا وہ اپنے ہی “جنوبی افریقہ لمحے” کو برداشت کر پائے گا؟

ٹک ٹاک

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos