اصغر گونڈوی اردو کے ان گنے چنے شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے حسن و عشق کی شاعری کو محض ہجر کی نالہ و زاری، جسم کی لطافتوں اور لذتوں کے بیان یا اس سوز و گداز سے جو عشقیہ شاعری کا لازمہ سمجھا جاتا ہے، دور رکھ کر اک نشاطیہ اور طربیہ لب و لہجہ دیا جو بالکل نیا تھا اور جو پڑھنے والے کو اداس یا غمگین کرنے کی بجائے ایک مسرت افزا کیفیت سے دوچار کرتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اس میں لکھنؤی شاعری کےاوچھے پن یا تہذیب سے گری ہوئی کسی بات کا شائبہ تک نہیں۔ اصغر کی شاعری اصلاً تصوف کی شاعری ہونے کے باوجود دوسرے صوفی شاعروں مثلاً درد، سراج اورنگ آبادی یا امیر مینائی کی شاعری سے بہت مختلف ہے اور وہ اس طرح کہ ان کی شاعری اس شخص کو بھی جسے تصوف یا صوفیانہ مضامین سے کوئی دلچسپی نہ ہو، سرشار اور محظوظ کرتی ہے۔ ان کا پیرایہ بیان دلکش، رنگین اور مسرت افزا ہے اور ان کی یہی خصوصیت ان کو دوسرے صوفی شعراء سے ممتا زکرتی ہے۔ اصغر نے بہت سے دوسرے شعراء کی طرح نال کٹتے ہی ”مطلع عرض ہے“ نہیں کہا بلکہ خاصی پختہ عمر میں شاعری شروع کی اور اس کو دوسروں تک پہنچانے یا مقبول بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ان کا چلتا پھرتا اشتہار بس جگر مراد آبادی تھے جو ان سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کی غزلیں جیب میں لئے پھرتے تھے اور ایک ایک کو سناتے تھے۔ اصغر کبھی پیشہ ور یا پُرگو شاعر نہیں رہے اور تبھی شعر کہتے تھے جب شعر خود کو ان سے کہلوا لے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا جو بھی کلام ہے وہ سارے کا سارا درجۂ اوّل کا، رطب و یابس سے پاک اور نفاست سے لبریز ہے۔
اسرار عشق ہے دل مضطر لیے ہوئے
قطرہ ہے بے قرار سمندر لیے ہوئے
آشوب دہر و فتنۂ محشر لیے ہوئے
پہلو میں یعنی ہو دل مضطر لیے ہوئے
موج نسیم صبح کے قربان جائیے
آئی ہے بوئے زلف معن بر لیے ہوئے
کیا مستیاں چمن میں ہیں جوش بہار سے
ہر شاخ گل ہے ہاتھ میں ساغر لیے ہوئے
قاتل نگاہ یاس کی زد سے نہ بچ سکا
خنجر تھے ہم بھی اک تہ خنجر لیے ہوئے
خیرہ کیے ہے چشم حقیقت شناس بھی
ہر ذرہ ایک مہر منور لیے ہوئے
پہلی نظر بھی آپ کی اف کس بلا کی تھی
ہم آج تک وہ چوٹ ہیں دل پر لیے ہوئے
تصویر ہے کھنچی ہوئی ناز و نیاز کی
میں سر جھکائے اور وہ خنجر لیے ہوئے
صہبائے تند و تیز کو ساقی سنبھالنا
اچھلے کہیں نہ شیشہ و ساغر لیے ہوئے
میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں
رگ رگ میں دوڑی پھرتی ہے نشتر لیے ہوئے
نام ان کا آ گیا کہیں ہنگام باز پرس
ہم تھے کہ اڑ گئے صف محشر لیے ہوئے
اصغرؔ حریم عشق میں ہستی ہی جرم ہے
رکھنا کبھی نہ پاؤں یہاں سر لیے ہوئے