بلبل ہند، فصیح الملک نواب مرزا داغؔ وہ عظیم المرتبت شاعر ہیں جنہوں نے اردو غزل کو اس کی حرماں نصیبی سے نکال کر محبت کے وہ ترانے گائے جو اردو غزل کے لیے نئے تھے۔ ان سے پہلے غزل ہجر کی تڑپ سے یا پھر تخیل کی بے لگام اڑانوں سے عبارت تھی۔ داغ ؔنے اردو غزل کو ایک شگفتہ اور رجائی لہجہ دیا اور ساتھ ہی اسے بوجھل فارسی تراکیب سے باہر نکال کے قلعہ معلیٰ کی خالص ٹکسالی اردو میں شاعری کی جس کی داغ بیل خود داغؔ کے استاد شیخ ابراہیم ذوقؔ رکھ گئے تھے۔ نیا اسلوب سارے ہندوستان میں اس قدر مقبول ہوا کہ ہزاروں لوگوں نے اس کی پیروی کی اور ان کے شاگرد بن گئے۔ زبان کو اس کی موجودہ شکل میں ہم تک پہنچانے کا سہرا بھی داغؔ کے سر ہے۔ داغؔ ایسے شاعر اور فنکار ہیں جو اہنے فکر و فن، شعر و سخن اور زبان و ادب کی تاریخی خدمات کے لئے کبھی فراموش نہیں کئے جائیں گے۔
اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
روز کہتے ہیں آپ آج نہیں
کل جو تھا آج وہ مزاج نہیں
اس تلون کا کچھ علاج نہیں
آئنہ دیکھتے ہی اترائے
پھر یہ کیا ہے اگر مزاج نہیں
لے کے دل رکھ لو کام آئے گا
گو ابھی تم کو احتیاج نہیں
ہو سکیں ہم مزاج داں کیونکر
ہم کو ملتا ترا مزاج نہیں
چپ لگی لعل جاں فزا کو ترے
اس مسیحا کا کچھ علاج نہیں
دل بے مدعا خدا نے دیا
اب کسی شے کی احتیاج نہیں
کھوٹے داموں میں یہ بھی کیا ٹھہرا
درہم داغ کا رواج نہیں
بے نیازی کی شان کہتی ہے
بندگی کی کچھ احتیاج نہیں
دل لگی کیجئے رقیبوں سے
اس طرح کا مرا مزاج نہیں
عشق ہے پادشاہ عالم گیر
گرچہ ظاہر میں تخت و تاج نہیں
درد فرقت کی گو دوا ہے وصال
اس کے قابل بھی ہر مزاج نہیں
یاس نے کیا بجھا دیا دل کو
کہ تڑپ کیسی اختلاج نہیں
ہم تو سیرت پسند عاشق ہیں
خوب رو کیا جو خوش مزاج نہیں
حور سے پوچھتا ہوں جنت میں
اس جگہ کیا بتوں کا راج نہیں
صبر بھی دل کو داغؔ دے لیں گے
ابھی کچھ اس کی احتیاج نہیں
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.