جنگی، چنگی ، فرنگی اور بے ڈھنگی


نشتر میڈیکل کالج کےدو جھنگی طلبہ کے درمیان وگتی کا مقابلہ جاری تھا۔خوب ہجوم تھا۔ ایک طالب علم بولے:”خود کو بڑی چیز سمجھتے ہو۔ تمہارے جیسا تو ہم کتا بھی نہیں رکھتے۔ جواب ملا: ” بالکل ٹھیک کرتے ہو جناب میرے جیسا کتا رکھنا بھی نہیں چاہیے ،کتا تو آپ جیسا ہی اچھا لگتا ہے۔ ہمارے علاقےمیں آپ جیسے ہی رکھتے ہیں ۔پچھلے دنو ں میں نے خود دو رکھے تھے۔جب بھی انہیں دیکھتا تھا آپ یا د آتے تھے۔ادھر آپکو ملتا ہوں تو یہی لگتا ہے کہ وہ میرے آس پاس ہی ہیں” ہر طرف قہقے گونج اٹھے ۔”وگتی ” کے حقیقی سپرٹ کا حق ادا کرتے ہوئے پہلا طالب علم خوش دلی سے بولا :”چھا گیا شہزادے ۔تیری وگتی زیادہ چنگی ہے” دونوں نے جپھی ڈالی، ڈاکٹر بنتے ہی دونوں فرنگی نگر چلے گئے ۔ وہا ں بھی اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔ خوب نام کمایا، پیسا بنایا ، ہر کسی کو ہنسایا ، یورپ بھر میں وگتی کا تعارف کروایا ، کئی گورے گوریوں کو بھی اسی کام پہ لگایا۔ سالوں بعد اک ڈاکٹر اپنے گاؤں واپس آیا ۔اک بزرگ نے کہا :” بیٹا ! حال دے” دکھی دل سے جواب ملا ” بابا جی ! میں کیا حال دوں ، فرنگیوں کے دیس میں تو کتوں کے مزے ہیں ہمارے جیسے تو خوار ہوتے ہیں ۔ بندہ کسی کو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں تو کتے جیسی زندگی گزار رہا ہوں کیونکہ وہا ں کتے موجیں کر تے ہیں ۔ہم دیسی لوگ تو کتے اور فرنگن کو دیکھ کر آہیں بھرتے ہی۔ں میں تو انگلستان جا کر بابا بلھے شاہ کا مرید ہو گیا ہوں ۔ بلھے شاہ نے مدتوں پہلے فرمایا تھااور کیا خوب فرمایاتھا:۔


کتے تیں تھوں اُتے …” بزرگ دنگ رہ گئے انہیں ڈاکٹر صاحب سے اتنی بے ڈھنگی گفتگو کی توقع نہ تھی ۔ وہ بلھے شاہ کے حافظ تھے ، عاشق تھے مرید تھے، جانتے تھے کہ بلھے شاہ نے تو اپنے نفس کے کتے کو سدھا رکھا تھا ۔ بلھے شاہ کے دل میں فقط عشق خدا رکھا تھا۔ بلھے شاہ کی اسی ادا نےزمانے کو ان کا پرستار بنا رکھا تھا۔ آج تک بنا رکھا ہے۔ بلھے شاہ تو یہ فرماتے ہیں کہ اگر انسان خدا کے ذکر سے غافل ہو ،اپنے نفس کا غلام ہو ،تو کتے اوردیگر جانور اس سے بہتر ہیں۔
قرآن کا بھی یہی فیصلہ ہے اگر انسان اللہ کا بندہ ہے تو مسجود ملائک ہے اور اگر اپنے نفس کا غلام ہو تو أَسْفَلُ سَافِلِينَ ہے ۔ بزرگ کو لگا کہ ڈاکٹرصاحب میڈیکل کے بارے میں جانتے ہیں ، فرنگیوں کے بارے میں جانتے ہیں، لیکن بلھے شاہ کی شاعری کی بابت ان کا علم انتہائی سطحی ہے ۔ڈاکٹر صاحب فرنگیوں کے کتوں کے مزاج آشنا ہو سکتے ہیں۔ مقامی کتوں کے مسائل اور حرکات و سکنات سے بالکل آشنا نہ تھے۔ ہماری دیہاتی زندگی کا کتے کے بغیر کوئی تصور ہی نہیں ۔ہمارے ہاں اصحاب کہف کے کتے کے بارے میں سبھی جانتے ہیں لیکن اپنے کتے کے بارے میں صرف بزرگ ہی جانتے تھے یا وہ اجنبی جو ایک دفعہ ان کے باغ کے پاس سے گزر رہے تھے۔ اجنبی نے ہمارے چاچا جی سے پوچھا ” میں نے ریلوے اسٹیشن جانا ہے یہا ں سے فاصلہ کتنا ہے”۔ فاصلہ بتایا گیا ، مسافر پریشان ہوا اور کہنے لگا : یوں تو مجھے ڈیڑھ دو گھنٹے لگ جائیں گے”۔ تسلی دی گئی “نہیں۔ آپ آدھے گھنٹے میں پہنچ جائیں گے”۔ مسافر نے اظہار افسوس کیا “آپ علم ریاضی سے آگا ہ نہیں” وضاحت پیش کی گئی” میں ریاضی جانتا ہوں یا نہیں لیکن میں اس راستے کو جانتا ہوں اور اپنے کتے کو بھی ۔ تھوڑی دور ہی میرا باغ ہے ، آپ وہاں سے گزریں گے تو میرا کتا آپ کے پیچھے لگ جائے گا۔تجربہ بتاتا ہےکہ مسافر آدھ گھنٹے سے بھی پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ میں نے تو آدھا گھنٹہ احتیاَ طاکہا ہے”۔ علم الحیوانات کے ماہر ین کا خیا ل ہے کہ سب سےپہلے انسان نے گھوڑے اور کتے کو پالتو بنایا۔ انقلابات ہیں زمانے کہ کتا اتنا پالتو ہوا کہ کئی مقامات پر شوہر تک فالتو ہوا۔ ہمارے ایک دوست کو گلہ یہ ہے کہ گوریاں شوہر کے بغیر رہ لیتی ہیں ، کتے کے بغیر نہیں۔ سچ ہے” کتے تیں تھوں اُتے۔۔۔” بنی نوع انسان اگر کتے کی شکر گذار ہےتو کتوں کو حضرت پطرس بخاری اور بابا بلھے شاہ کا مشکور ہونا چاہیئے۔ پطرس اور بلھے شاہ نے کتے کو اردو نثر اور صوفیانہ شاعری میں امر کردیا ہے۔ کالم نگار خوش قسمت ہے کہ پطرس کے مضمون کی ڈرامائی تشکیل سے بھی محظوظ ہو چکا ہے ۔ عالم نوجوانی میں ایک ایسی تحصیل میں ملازمت کرنے کا موقع ملا جہاں اسسٹنٹ کمشنر کے گھر کی کوئی باونڈری وال نہیں تھی۔ اگر کبھی رات کو نو بجے کے بعد گھر آنے کا موقع ملتا تھا تو صدر دروازے کے عین باہر تیس چالیس شاعرانہ مزاج کتے براجمان ہوتے تھے۔ دھیمی آواز میں کلام سناتے تھے ۔ دھیمی آواز میں ہی داد پاتے تھے۔ وہ کالم نگا رکی یادوں کا خوبصورت حصہ ہیں ، اگرچہ دانشور حضرات کا خیال ہے کہ شکاری کتے اور شکاری انسان ہی ہمیشہ فائدے میں رہے ہیں لیکن یہ احقرالعباد اس راۓ سے قطعاً متفق نہیں۔ انسان اور کتے کا تعلق پرانا بھی ہے اور پر اسرار بھی۔ انسان کتے کی وفاداری کا قائل ہے تو لالچی کو بھی کتا ہی کہتا ہے۔ہمارے ہاں کتے کا بچہ بدترین گالی ہے تو دیار مغرب میں بھی کتیا کا بچہ بدترین گالی ہے۔ ایک دوست اپنے مخالفوں کے بارے میں کہتے ہیں “بعض لوگ کتے کے بچے ہوتے ہیں۔ بعض کتیا کے بچے ہوتے ہیں میرے مخالف کتے اور کتیا دونوں کے بچے ہیں”۔ حالانکہ کتے کا بچہ کتیا کا ہی بچہ ہوتا ہے اور کتیا کا بچہ کتے کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ بجا ہے غصے کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی اور کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں “جنگ اور محبت میں سب جائز ہے”۔ کیا ظلم ہے کہ و طن عزیز کے بعض مقامات پر اکیسویں صدی میں محبت کرناہی ناجائز قرار دے دیا گیا ہے۔ہمارے عاشق تو اتنے قناعت پسند ہیں کہ سگ در لیلی بن کر بھی راضی رہتے ہیں۔ راضی تو ہمارے پسندیدہ مزاح نگار مارک ٹوئن اپنے بچپن سے تھے ۔ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی وہ اتنے تنگ دست تھے کہ ایک کتا نہیں خرید سکتے تھے۔شریکے کے چکر میں انہیں بعض اوقات خود ہی بھونکنا پڑتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں لیکن ہر صاحب عقل یہی مشورہ دیتا ہے کہ کتے کا کیا پتہ کہ کب بھونکنا بند کردے اور کاٹنا شروع کردے ۔ ویسے بھی انسانوں کے ساتھ رہ رہ کر کتے سمجھدار ہو گئے ہیں۔ اب کتے حسب ضرورت فیصلہ کرتے ہیں کہ کب بھونکنا ہے اور کب کاٹنا ہے اور کس پر بھونکنا ہے اور کس کو کاٹنا ہے۔کئی صوفیاء انسانی نفس کو کتے سے تشبیہ دیتے ہیں۔انسان کو جس کتے سے ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے وہ نفس کا کتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے نفس کی شر سے پناہ میں رکھے۔
تری جانب سے دل میں وسوسے ہیں
یہ کتے رات بھر بھونکا کیے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos