Premium Content

‏جنوبی پنجاب کے قابل انتخاب اور تحریک انصاف

Print Friendly, PDF & Email

مقامی تجزیہ نگاروں کے مطابق جنوبی پنجاب سے قابل انتخاب کی اکثریت تحریک انصاف کو چھوڑ جائے گی اور تحریک انصاف کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 150 سے زائد نشستوں پر نئے امیدواران کا انتخاب کرنا ہو گا۔ اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف صرف جنوبی پنجاب میں سے اتنے زیادہ اور بہتر امیدواران سامنے لا سکے گی؟

جنوبی پنجاب میں بلوچ سردار ، جاگیردار اور پیر صاحبان ہی قابل انتخاب ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جنوبی پنجاب میں ہمیشہ یہ قابل انتخاب ہی جیتتے چلے آئے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف نے انہی قابل انتخاب کے ذریعے کامیابی سمیٹی۔ بلکہ انہی قابل انتخاب میں سے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب کروایا۔ مزید یہ کہ شاہ محمود قریشی، خسرو بختیار، ہاشم جواں بخت، محسن لغاری، علی دریشک، دوست مزاری اور بہت سے دوسروں کو وفاقی اور صوبائی وزارتوں سے بھی نوازا۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.

جنوبی پنجاب میں جاگیررانہ نظام کے خلاف مزاحمت ایک عرصے سے چلی آرہی ہے مگر سیاسی جماعتیں عوامی خواہشات کے برعکس قابل انتخاب کو ہی نوازتی چلی آئی ہیں۔ ریپبلک پالیسی کے مارچ 2023 کے حلقہ جاتی سروے کے مطابق جنوبی پنجاب کی مقبول ترین پارٹی تحریک انصاف ہے۔ اسکے علاؤہ کوئی دوسری پارٹی مقبول نہیں ہے بلکہ قابل انتخاب مقبول ہیں۔ لہذا اصل مقابلہ تحریک انصاف اور قابل انتخاب کا ہے۔ یہاں تک کہ دوسرے درجے کے قابل انتخاب بھی تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب میں جتوا سکتے ہیں۔ اگر سارے قابل انتخاب تحریک انصاف کو چھوڑ بھی جاتے ہیں تو پھر بھی مقابلہ تحریک انصاف اور قابل انتخاب کا ہی ہو گا۔ تاہم ایسا کرنے کے لیے تحریک انصاف کو بطور پارٹی منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ عون عباس بھی جو کہ جنوبی پنجاب کے صدر ہیں، انہوں نے تحریک انصاف کو منظم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے بلکہ ان کی ساری تنظیم سازی کا مدعا قابل انتخاب اکٹھے کرنا ہی رہا ہے۔ اب جبکہ قابل انتخاب ہی پارٹی چھوڑ رہے ہیں تو انکی کارکردگی نہ صرف مایوس کن بلکہ منفی رہی ہے۔

عثمان بزدار کے بارے میں بھی خبریں آ رہی ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ مقامی تجزیہ نگاروں کے مطابق قابل انتخاب کی ذیادہ تعداد پیپلز پارٹی کی طرف مائل ہے کیونکہ یہ افواہیں سرگرم ہیں کہ مقتدرہ حلقوں کا انتخاب بلاول بھٹو ہیں، اس لحاظ سے باقی قابل انتخاب بھی پیپلز پارٹی کی طرف ہی جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ قابل انتخاب آزاد حیثیت میں بھی الیکشن لڑنا چاہ رہے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب کے قابل انتخاب کو مفتوحہ مال غنیمت کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ جنوبی پنجاب کے حلقوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر حلقے میں بہت سے قابل انتخاب موجود ہیں، اس لیے ہر پارٹی کوئی نہ کوئی قابل انتخاب حاصل کر لے گی، ایسا ہونے سے تحریک انصاف ہی جیتنے کی پوزیشن میں آجائے گی۔

رپبلک پالیسی کا ماہ جون کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔

آخر میں قابل انتخاب کے بغیر بھی تحریک انصاف مقابلے میں رہے گی اور بہتر الیکشن کمپین اور منظم ہو کر جنوبی پنجاب کا سیاسی محاذ جیت سکتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن مقابلے میں نہیں ہے سوائے ان حلقوں کے جہاں پر اسے قابل انتخاب میسر ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی قابل انتخاب پر انحصار کرے گی۔ آخر میں سب سے اہم فیصلہ جنوبی پنجاب کے عوام کا ہو گا کہ وہ کس کو منتخب کرتی ہے۔ جنوبی پنجاب کی سیاست میں حکومت بنانے والی جماعت کو بھی ووٹ پڑتا ہے کیونکہ لوگوں نے حکومتوں سے ہی اپنے کام نکلوانے ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے انتخابات انتہائی دلچسپی کا باعث ہونگے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos