Premium Content

جنوبی پنجاب کی سیاست اور جاگیردارانہ نظام

Print Friendly, PDF & Email

مصنف :     فہد گورچانی

مصنف تاریخ میں ایم فل ڈگری رکھتے ہیں۔

جنوبی پنجاب جس میں ملتان، ڈیرہ غازی خان، اور بہاولپور ڈویژن شامل ہیں، صوبہ پنجاب کے جنوبی حصے میں 11 اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہ پنجاب کی 32 فیصد آبادی (34.7 ملین افراد) کا گھر ہے اور صوبے کی 45 فیصد اراضی (تقریباً 91,998 کلومیٹر) پر محیط ہے۔ اس کی آبادی کی اکثریت (77 فیصد) دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ اس کی زرخیز  زمین اور کم آبادی کی کثافت خطے میں عوامی خدمات کی فراہمی کے لحاظ سے زیادہ اخراجات کا باعث بنتی ہے۔

پاکستان کی سب سے زرخیز زمین ہونے کے باوجود یہ علاقہ پاکستان بننے سے لے کر اب تک غربت کی چکی میں  مسلسل پس رہا ہے۔ صوبے کے دیگر حصوں کے مقابلے میں، جنوبی پنجاب میں صحت ، تعلیم ، انصاف، ذرائع ابلاغ ، ذرائع نقل و حمل، اور دیگر بنیادی سہولیات  نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ناقص انفراسٹرکچر، کمزور سماجی خدمات کے ادارے، ناکافی زرعی سہولیات، اور میونسپل سروسز میں بڑے خلاء  ہیں۔ ذات، طبقے، نسل، جنس، اور زمین کی ملکیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی وجہ سے سماجی پسماندگی بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے 40 ملین افراد میں سے 10 ملین جنوبی پنجاب میں رہتے ہیں۔ غریب ترین چار اضلاع میں غربت کی سطح 48 سے 64 فیصد کے درمیان ہے، جو کہ شمالی یا مغربی پنجاب کی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔

جنوبی پنجاب کی سیاست کا تعین تاریخی طور پر بڑی قومی جماعتوں کے سیاسی ایجنڈوں سے ہوتا رہا ہے، کسی بھی مقامی ترجیحات کے مجازی اخراج تک پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) یا پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل) کی بدلتی ہوئی حکومتوں نے شاذ و نادر ہی کسی منظم انداز میں جنوبی پنجاب کے اضلاع کے مخصوص مسائل اور مطالبات سے نمٹا ہو۔ ایسا ہی نمونہ صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی سامنے آیا۔ 2001 اور 2005 کے بلدیاتی انتخابات کے دوران جب کچھ مقامی مسائل کو اہمیت حاصل ہوئی تو وہ واحد موقع تھا جب مقامی سیاستدانوں نے جنوبی پنجاب کی شکایات کو اجاگر کیا اور انہیں صوبائی سطح پر توجہ دلائی۔ جیسے ہی 2008 کے دوران صوبائی اور قومی سطح پر منتخب حکومتوں نے اقتدار سنبھالا، یہاں تک کہ مطالبات کے اظہار کی یہ کھڑکی بھی بند کر دی گئی کیونکہ مختلف مقامی حکومتوں کو غیر فعال کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/janobi-punjab-aur-darbari-siyasat/

لگ بھگ ہر ترقیاتی پیمانے پر، جنوبی پنجاب کی  پوزیشن باقی صوبوں  سے بدتر ہے۔ اس علاقے میں غربت، صحت و تعلیم کی ابتر صورتحال، بے روزگاری، اسکول سے باہر بچوں، چائلڈ لیبر اور دوسرے مسائل کی شرح باقی پنجاب کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔ اس کی صورتحال اندرون سندھ یا بلوچستان سے کسی اعتبار سے مختلف نہیں۔ حال ہی میں شائع شدہ جنوبی پنجاب ریجنل ایس ڈی جیز انڈیکیٹرز رپورٹ، جسے یو این ڈی پی نے جنوبی پنجاب کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے، ظاہر کرتی ہے کہ جنوبی پنجاب کی 31 فیصد آبادی قومی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، جب کہ 55 فیصد آبادی پاکستان کی اوسط کے نصف سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ جنوبی پنجاب میں صوبے کی سب سے کم شرح خواندگی، ہنر مندوں کی پیدائش، کھانا پکانے کے ایندھن کے طور پر گیس کا گھریلو استعمال، انٹرنیٹ تک رسائی والے گھرانوں، صاف پانی اور صفائی ستھرائی تک رسائی بنیادی مسائل ہیں۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ مینجمنٹ سروے کے اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جنوبی پنجاب بنیادی خدمات کے لحاظ سے صوبے کا سب سے محروم حصہ ہے۔ مثال کے طور پر، اس کی صرف 56.2 فیصد آبادی صفائی کی بہتر سہولیات استعمال کرتی ہے۔

اقوام متحدہ نے 2022 میں پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں  چشم کشا انکشافات کیے گئے ہیں۔  پہلے بات یہ بتائی گئی ہے کہ جنوبی پنجاب میں غربت اندرون سندھ اور بلوچستان سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ جنوبی پنجاب میں باقی صوبے کے نسبت 2.1 گنا زیادہ غربت ہے۔ باقی صوبے کے نسبت جنوبی پنجاب میں 44 فیصد سے  زیادہ لوگ غربت کا شکار ہیں۔ اسی طرح صحت کے میدان میں بھی یہ علاقہ باقی صوبے کی نسبت بہت پیچھے ہے۔ راجن پور، ڈی جی خان، مظفرگڑھ اور مضافات میں کوئی ڈھنگ کا ہسپتال نہیں ہے۔ مریض کے بچنے کی واحد امید نشتر ہسپتال ملتان ہے مگر وہ بھی مریضوں سے اٹا ہوا ہوتا ہے اور بستروں کی کمی ہوتی ہے۔ ویسے بھی جنوبی پنجاب میں باقی صوبے کے مقابلے میں 61 فیصد کم بستر ہیں۔ مریض اور بستر کی شرح بھی باقی صوبوں کی نسبت 50 فیصد زیادہ ہے۔ مطلب یہ کہ ایک بستر پر دو مریضوں کو رکھا جائے گا۔ تعلیم کے معاملے میں جنوبی پنجاب بلخصوص پسماندہ ہے۔ باقی صوبے کے مقابلے میں یہاں تعلیم کی شرح 16 فیصد کم ہے جو کہ افسوسناک بات ہے۔ جنوبی پنجاب کی قریباً دو تہائی خواتین ان پڑھ ہیں جس سے حکمران طبقے کی بے حسی اور تعلیم میں عدم دلچسپی صاف نظر آتی ہے۔

کچھ سالوں پہلے ڈاکٹر علی چیمہ جو کہ انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز لاہور کے محقق ہیں نے پاکستان میں موروثی سیاست کا موازنہ دوسرے ممالک سے کیا۔ اگرچہ موروثی سیاست ایک عالمی مسئلہ ہے، پاکستان میں یہ کینسر خطرناک حد  تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان بننے سے لے کر آج تک گنتی کے چند خاندانوں نے پوری سیاست کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست ہو یا قومی اسمبلی کی، مخدوم، مزاری، گورچانی، گورمانی، لغاری، کھر، دولتانہ، ، دریشک، کھوسہ، قریشی، ڈوگر، وغیرہ ہی آپس میں الیکشن لڑتے رہتے ہیں ۔ ہارے گا تو وڈیرا، جیتے گا تو وہ بھی وڈیرا یا سردار۔

اب ایک نظر ڈالتے ہیں پنجاب کے پسماندہ ترین علاقوں پر جن میں راجن پور، مظفر گڑھ، ڈی جی خان، بہاولپور وغیرہ شامل ہیں۔ 2022 کے  اکنامک سروے پر نظر ڈالیں تو ان شہروں میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پہلے نمبر پر ضلع مظفرگڑھ ہے جس میں غربت کی شرح 64.8 فیصد ہے۔ 64.4 پوانٹس کے ساتھ راجن پور دوسرا غریب ترین شہر قرار پایا ہے۔ ڈی جی خان کا تیسرے نمبر ہے جہاں غربت کی شرح 63.7 فیصد ہے۔ بہاولپور، جو قیام پاکستان سے پہلے بر صغیر کی امیر ترین ریاستوں میں سے  ایک تھا، جبکہ آج ادھر بھوک نے ڈیرے جمائے  ہوئے ہیں۔ سروے کے مطابق بہاولپور میں غربت کی شرح 53 فیصد سے بھی زائد ہے جو کہ جنوبی پنجاب میں وڈیرا گردی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پنجاب پاکستان کا امیر ترین صوبہ ہے جہاں غربت کی شرح 31 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ جنوبی پنجاب بلخصوص مندرجہ بالا شہروں میں غربت صوبے کی باقی علاقوں کی نسبت دوگنا سے بھی زائد ہے۔

اس تناظر میں پہلی بات یہ مشاہدہ میں آتی ہے کہ قیام پاکستان سے ہی ان شہروں میں چند  بڑے گھرانے اقتدار پر قابض ہیں۔ یہ لوگ ان علاقوں میں تعلیم کو فروغ دیتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کی ڈویلپمنٹ کا کام ہونے دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان سرداروں کی سرداری اور سیاست پر اجارہ داری قائم رہتی ہے۔ مزدور کا بیٹا مزدوری ہی کرتا رہے گا۔ بیٹی گھروں میں ہی محصور رہے گی۔ لوگ پرانے کھوکھلے نعروں اور ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے رہیں گے۔  مثال کے طور پر اس وقت راجن پور کی پانچ صوبائی اسمبلی کی نشستوں اور تین قومی اسمبلی کی نشستوں پر لغاری، مزاری اور دریشک خاندان کے لوگ جیتتے  آئے ہیں۔ 2018 کے انتخابات کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر سردار محمد جعفر خان لغاری، سردار نصراللہ دریشک اور سردار محمود خان مزاری منتخب ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر سردار حسنین بہادر دریشک، سردار فاروق امان اللہ دریشک، سردار محمد اویس دریشک، سردار محسن لغاری، اور سردار دوست مزاری کامیاب ہوئے۔

 چند روز قبل وفات پانے والے سردار جعفر لغاری نے  چھ مرتبہ قومی اسمبلی کی سیٹ جیتی اور دو مرتبہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ٹھہرے۔ 2002 سے 2022 تک مسلسل ایم این اے بنتے رہے مگر علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی نمایاں کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔ نوے کی دہائی میں سردار جعفر لغاری کے کزن سردار فاروق لغاری ملک کے صدر رہے، 2 بار اسمبلیاں توڑی مگر اپنے حلقے کے غریبوں کیلئے کچھ نہیں کیا۔ حال ہی میں اسی قبیلے کے اویس لغاری اور محسن لغاری وزیر بھی رہ چکے ہیں مگر مجال ہے کہ اپنے علاقوں میں انسانی فلاح و بہبود کا کوئی بڑا منصوبہ بنایا ہو۔ دریشک خاندان بھی مختلف حلقوں میں الیکشن جیتتے رہے ہیں جن میں سردار نصراللہ دریشک، سردار علی رضا دریشک، سردار حسنین بہادر دریشک، سردار اویس دریشک، اور سردار احمد علی خان دریشک وغیرہ بھی صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابیاں سمیٹتے نظر آتے ہیں مگر علاقے کا حال جوں کا توں ہے ۔ ان میں کئی سردار پانچ چھ مرتبہ صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستوں پر جیتتے رہے ہیں۔ اب ان سرداروں کی تیسری نسل جنوبی پنجاب کی سیاست میں آ رہی ہے۔ اس پر ساحر لدھیانوی کا شعر منطبق ہوتا ہے

نسل در نسل انتظار رہا

قصر ٹوٹے نہ بے نوائی گئی

نوابزادہ نصر اللہ خان اور مشتاق احمد گرمانی کا شہر مظفرگڑھ، جو کہ صوبے کا دوسرا غریب ترین ضلع ہے، اس پر بھی 75 سالوں سے وہی اشرافیہ قابض ہے۔ 1955 میں سردار عبد الحمید خان دستی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تھے اور 2018 میں اسی خاندان کے چشم و چراغ سردار عبد الحی دستی پی پی 270 سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتے۔ پی پی 275 سے خرم سہیل خان لغاری منتخب ہوئے جو اللہ وسایا عرف چنوں لغاری کے بیٹے ہیں۔ چند سال پہلے تک چنوں لغاری صوبائی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوے تھے اور اب ان کی اگلی نسل ہماری سروں پر مسلط ہو گئی ہے۔ پی پی 274 سے محمد رضا بخاری، پی پی 273 سے سید سبطین رضا، پی پی 272 سے معظم علی جتوئی، پی پی 279 سے اشرف خان رند، پی پی 277 سے میاں علمدار عباس قریشی اور باقی خاندان دہائیوں سے مظفرگڑھ کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوتے آئے ہیں۔ 

اگرچہ ملتان میں غربت باقی جنوبی پنجاب سےکام  ہے،مگر طرزِ سیاست کوئی زیادہ مختلف نہیں۔  قریشی، ہاشمی، گیلانی، بوسن، ڈوگر، اور چند اور گھرانوں کے علاوہ کسی اور کا صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے تین بیٹے، علی موسیٰ گیلانی، علی حیدر گیلانی، علی قاسم گیلانی بھی سیاست میں انٹری دے چکے  ہیں۔ علی حیدر پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیر بنے تھے۔ موسیٰ گیلانی نے حال ہی میں شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو کو شکست دے کر قومی اسمبلی کی نشست جیتی ہے۔ شاہ محمود قریشی جو ابھی بھی سیاست کا اہم حصہ ہیں، اپنے بیٹے زین حسین قریشی کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر جتوا چکے ہیں۔ این اے 157 کے ضمنی انتخاب میں اپنی بیٹی شہربانو کی انٹری کروا کر شاہ محمود قریشی نے یہ واضح پیغام  دیا ہے کہ جنوبی پنجاب کی سیاست پر صرف چند خاندانوں کی ہی اجارہ داری رہی ہے اور حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔

ایک طرف غربت اور بھوک اور دوسری طرف ان حکمرانوں کی نہ ختم ہونے والی عیاشیاں ہیں۔ ان میں سے بہت سے سرداروں کی اربوں روپے کی جائیدادیں ہیں۔ سردار صاحب اس بات کو کسر شان سمجھتے ہیں کہ اگر وہ لاہور یا اسلام آباد جائیں تو وہاں ان کا ایک عالی شان محل نہ ہو۔ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ یا یورپ جائیں مگر ان کے حلقے کے سکولوں میں تعلیم کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ یواین ڈی پی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق  ان علاقوں میں تعلیم کا معیار یہ ہے کہ آٹھویں کلاس کے طالب علم کو اردو اور انگریزی پڑھنی اور لکھنی نہیں آتی۔ ان حالات میں کوئی بچہ اپنی 16 سالہ تعلیم مکمل کر بھی لے تو وہ مقابلے کا کوئی امتحان پاس نہیں کر پاتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم دی جائے تاکہ لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر آنے کا موقع ملے۔ اس کے علاؤہ کوئی اور حل نہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos