Premium Content

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

Print Friendly, PDF & Email

اقبال کی شاعری تصوّرات کی شاعری ہے۔ لیکن جو صفت تصوّرات کو شاعری بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال تشبیہوں، استعاروں اور مخصوص علامتوں کے ذریعہ اپنے افکار کو مخصوص شکل میں پیش کرتے ہیں جس کا  تقاضہ ہے کہ افکار کے حسّی متبادل تلاش کئے جائیں تا کہ افکار کو جذبہ کی سطح پر لایا جا سکے اور فکر محض خشک فکر نہ رہ کر اک حسّی اور ذہنی تجربہ بن جائے اور اک مخصوص نوعیت کے ادراک کی شکل اختیار کر لے۔ یہی بات کم و بیش علامتوں کے انتخاب میں بھی سامنے آتی ہے۔

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

عطارؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالیؔ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی

نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہٰی

آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos