ادارتی تجزیہ
عدلیہ کی آزادی کسی بھی جمہوری ریاست کی روح ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں وہ وعدہ، جو 2007 کی وکلا تحریک کے دوران غیرجانبدار اور جری عدلیہ کی صورت میں ابھرا تھا، اب مدھم پڑ چکا ہے۔ اسی حقیقت کی گونج حال ہی میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور اُن کے 38 سابق لا کلرکس کے بیانات میں سنائی دی، جنہوں نے خبردار کیا کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی خودمختاری کے لیے وجودی خطرہ بن سکتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس آفریدی کو لکھے اپنے کھلے خط میں اس ترمیم کو سپریم کورٹ کے لیے ’’آخری سانس‘‘ قرار دیا، جو ادارہ جاتی زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔
جسٹس من اللہ نے افسوس ظاہر کیا کہ بنیادی حقوق محض نعرہ بن چکے ہیں، اور عدلیہ کی آزادی صرف بیرونی دباؤ سے نہیں بلکہ اندرونی کمزوریوں سے بھی متاثر ہوئی ہے — جب جج صاحبان طاقت کے سامنے ’’جھکنے‘‘ لگیں۔ ان کے الفاظ ایک تلخ حقیقت کی یاد دلاتے ہیں: وہ عدلیہ جو کبھی آمریت کے خلاف ڈھال بنی تھی، اب اپنی ہی خاموشی اور مصلحت کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔
خط میں ایک تشویشناک انکشاف کا بھی ذکر کیا گیا کہ ایک سابق چیف جسٹس نے اپنے ساتھی ججوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے ’’مارشل لا کو روک رکھا‘‘ ہے اور انہیں خبردار کیا تھا کہ وہ ’’گھر بھیجے جا سکتے ہیں‘‘۔ یہ بات اس خطرناک قربت کی علامت ہے جو عدالتی کردار اور سیاسی طاقت کے درمیان بارہا پاکستان کی تاریخ میں دیکھی گئی ہے — اور جس نے ہمیشہ اداروں کو نقصان پہنچایا ہے۔
ان 38 کلرکس نے، جن میں ممتاز قانون دان اور سابق جج بھی شامل تھے، انتباہ کیا کہ 27ویں آئینی ترمیم—جو آئینی عدالتوں کے قیام، عدالتی تبادلوں میں انتظامیہ کے اختیار اور عسکری کمان میں تبدیلی کی تجویز رکھتی ہے—درحقیقت ’’اصلاحات کے پردے میں سیاسی منصوبہ‘‘ ہے تاکہ عدلیہ کو تابع بنایا جا سکے۔ چیف جسٹس آفریدی سے ان کی اپیل محض قانونی نہیں بلکہ اخلاقی قیادت کا امتحان ہے، جو 2007 کے تاریخی لمحے کی یاد تازہ کرتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا جرات مندانہ مؤقف یاد دلاتا ہے کہ ادارے طاقت کے زور سے نہیں بلکہ اپنے اندر کے سمجھوتوں سے گرتے ہیں۔ اگر عدلیہ نے اپنی آزادی واپس حاصل نہ کی، تو پاکستان اپنی آئینی جمہوریت کی بنیاد ہی کھو بیٹھے گا۔











