جمعہ فقیر یہاں(لاڑکانہ) کا دانا فقیر تھا۔فقیروں ، جوگیوں ، درویشوں کے اس قدیمی سلسلے کی کڑی تھا جو صدیوں سے سندھ دھرتی پر موجود چلے آتے ہیں۔
ویسے دنیا کا شاید ہی کوئی حصہ ہو، جہاں ایک طرف چھوٹے بڑے حکمران ، سوداگر، ملا، پنڈت اور ان کے ذیلی گروہ ،جیسے دستکارنہ ہوں اور دوسری طرف یہ فقیر ، شاعر، قصہ گو نہ ہوں۔ ایک طرف دنیا کو ایک نظم کے تحت لانے والے رہے ہیں، دوسری طرف نظم شکن۔ فقیر اورجوگی سما ج کے اس تانے بانے کو بری طرح ادھیڑ دیتے ہیں، جو حکمرانوں نے اپنے ماتحتوں کی مدد سے ،بڑی محنت سے تیار کیا ہوتا ہے۔
سماج کا نظم کیا ہے؟ ہم سب کے کان میں اذان یا کسی دوسری رسم کے ساتھ ہی یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ دیکھو: یہ چوبیس گھنٹے ہیں، ان میں یہ وقت کام کا ، یہ آرام کا ہے؛ اتنے گھنٹے علم حاصل کرنا، مزدوری کرنی ، مشقت کرنی ہے؛ اتنا وقت عبادت ، خدمت ، تفریح کو دینا ہے اور اتنا وقت تم آرام کرسکتے ہو۔ہر رات سونے سے پہلے، اپنے دن بھر کی اس کنٹری بیوشن کا حساب کرو اوردیکھو کہاں کمی رہ گئی ہے؛ تم مزید کتنی مشقت کرسکتے ہو۔
سب لوگ کچھ نہ کچھ اس نظم سے انحراف کرتے ہوں گے ، لیکن فقیر اور جوگی اس پورے نظم کو توڑ دیتے ہیں۔ کیوں ؟ایک اس لیے کہ اس سارے نظم کی بنیاد ہی کمزور ہے۔ اسے توڑنے کے لیے عصبی طاقت نہیں ، ذہنی جرآت اور نظم کی بنیاد کی کمزوری کی بصیرت چاہیے۔ دو، اس لیے کہ زندگی ،اپنے حقیقی معنی اور دانش ، حکمرانوں کے وضع کردہ سماجی نظم میں ظاہر ہی نہیں کرتی۔یہ نظم ،زندگی کے چشمے کو ابلنے نہیں دیتا، خشک کردیتا ہے۔
اس نظم کے تحت کام کرنے والے انتہائی ذہین ہوسکتے ہیں ، بڑے بڑے ، تجریدی فلسفے، نظریات پیش کر سکتے ہیں، جناتی قسم کی کارپوریشنیں چلا سکتے ہیں، ایک کمرے کی آرادم دہ کرسی پر بیٹھ کر کروڑوں اربوں انسانوں کی زندگی کے فیصلے کرسکتے ہیں،ملکوں کی تاریخ بدل سکتے ہیں، کبھی جنگوں ، کبھی وباؤ ں سے بستیوں کو صفحہ ہستی وتاریخ سے مٹا سکتے ہیں، مگرزندگی کی بنیادی مگر انتہائی سادہ سچائیوں سے یکسرنابلد رہتے ہیں اور اس دنیا کو خداحافظ کہتے ہوئے، ایک گہرا تاسف لے جاتے ہیں۔ زندگی جی نہ سکنے کا تاسف!
فقیر اور جوگی ، سماج کے اسی ، عفریت نما نظم کو توڑ دیتے ہیں اور بالکل سادہ انداز میں۔ جمعہ فقیر ، وتایو فقیر اور دوسروں نے یہی نظم توڑا تھا۔بھٹائی نے اسی نظم سے بغاوت کی تھی اور بیسویں صدی میں شیخ ایاز نے۔
سب فقیر اور جوگی باغی ہوتے ہیں۔ ان کی بغاوت ، ایک خاص سیاسی نظام کے خلاف کم اور سماج کے عمومی نظم کے خلاف زیادہ ہوتی ہے۔ مطلب، وہ کوئی چھوٹے موٹے باغی نہیں ہوتے۔ ایک مخصوص سیاسی نظام کے باغی کے پاس ایک نظریے کی طاقت ہوتی ہے۔ جوگیوں کے پاس زندگی کے پورے نظم کو الٹا دینے کی ناقابل تصور طاقت ہوتی ہے
تاہم ان میں بھی کچھ نقلی ہوتے ہیں۔ان کا بھیس فقیر کا ،مگر دل جاہ پرست و ہوس پرست کا ہوتا ہے۔جمعہ فقیر ، اصل فقیر تھا۔