حکومتی انتقام یا عدالتی فیصلہ؟ سیاست اور قانون کی کشمکش

[post-views]
[post-views]

مبشرندیم

پاکستان میں ایک بار پھر عدالتوں کے فیصلے انصاف سے زیادہ انتقام کی جھلک دینے لگے ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں، جو کبھی ریاست کے بدترین دشمنوں کے لیے مخصوص تھیں، اب سیاسی رہنماؤں کو طویل سزائیں سنانے کا ذریعہ بنتی جا رہی ہیں۔ سرگودھا، لاہور اور اسلام آباد میں بیک وقت دیے گئے فیصلوں نے اس تاثر کو مزید گہرا کر دیا ہے کہ سیاسی اختلافات کو ریاستی طاقت کے ذریعے دبایا جا رہا ہے۔

یہ تمام سزائیں 9 مئی کے واقعات کی بنیاد پر دی گئیں، جنہیں ریاست نے “ریڈ لائن” قرار دیا۔ ان واقعات کی مذمت تو سب نے کی، مگر یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا ریاست نے ان کے بعد جو ردعمل دیا، وہ آئینی حدود میں تھا؟ کیا احتجاج کے آئینی حق کو غداری یا بغاوت سے تعبیر کرنا ایک خطرناک نظیر نہیں ہے؟ عدالتوں کا کام آئین کی تشریح اور انصاف کی فراہمی ہے، مگر موجودہ صورتحال میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ عدالتی فیصلے حکومتی بیانیے کی توثیق کا ذریعہ بن چکے ہیں۔

اگر عدالتوں سے یہ تاثر ابھرے کہ وہ مخصوص جماعت کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں، تو یہ نہ صرف عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ جمہوریت کی روح کو بھی مجروح کرتا ہے۔ عدلیہ اگر آج ایک جماعت کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، تو کل یہ تلوار کسی اور سیاسی جماعت پر بھی چل سکتی ہے۔ اس روش کا تسلسل سیاسی اختلاف رائے کو جرم، اور اختلاف کو دہشت گردی قرار دینے کے رحجان کو بڑھا دے گا۔

سیاست جب عدالتوں کے کٹہروں میں گھسیٹی جائے، تو ریاستی توازن خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ عدالتیں انصاف کا دروازہ نہیں بلکہ عوام کے اعتماد کا مرکز ہوتی ہیں۔ اگر ان پر جانبداری، دباؤ یا بدنیتی کا شبہ پیدا ہو جائے، تو قانون کی اخلاقی طاقت کمزور ہو جاتی ہے۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد اگر پورے سیاسی ڈھانچے کو دیوار سے لگایا جائے، تو یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ کیا یہ انصاف ہے یا انتقام؟

انسدادِ دہشت گردی کا قانون، جو شدت پسندوں اور ریاست دشمن عناصر کے خلاف استعمال ہونا تھا، آج سیاسی کارکنوں اور سوشل میڈیا صارفین پر لاگو کیا جا رہا ہے۔ اگر نعرے بازی، احتجاج یا تنقید کو بھی دہشت گردی قرار دیا جائے، تو پھر جمہوریت کا وجود کیسے سلامت رہے گا؟ اس قانون کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا، نہ صرف قانون کی روح کے خلاف ہے بلکہ جمہوریت کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن میں عدالتوں نے طاقتوروں کی حمایت کی اور سیاسی مخالفین کو سزا دی۔ ایوب خان کا مارشل لا ہو، جنرل ضیاء کی بھٹو مخالف عدالتی کارروائی، یا جنرل مشرف کے دور میں نواز شریف کی جلا وطنی – یہ سب مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عدالتی فیصلے اکثر تاریخ میں متنازعہ رہے ہیں۔ اب ایک بار پھر ہم عدالتی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں انصاف کے نام پر سیاسی وفاداریوں کی چھان پھٹک ہو رہی ہے۔

اگر ریاستی ادارے بالخصوص عدلیہ، اپنی آئینی ذمہ داریوں کو سیاسی مصلحتوں کے تابع کریں گے، تو اس کا انجام جمہوریت کے لیے تباہ کن ہوگا۔ عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ آئین اور قانون کی روشنی میں فیصلے دے، نہ کہ حکومتی پریس ریلیز کے تحت۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو جو کچھ آج ہو رہا ہے، وہ کل کو جمہوری نظام کی مکمل تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

انصاف اندھا ہوتا ہے، لیکن اگر اس کی آنکھوں پر کسی خاص سوچ یا جماعت کی وفاداری کی پٹی بندھی ہو، تو وہ اندھا نہیں بلکہ گمراہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کو ایک آزاد، باوقار اور آئینی ریاست بننے کے لیے ضروری ہے کہ عدلیہ ہر قسم کے سیاسی دباؤ سے خود کو الگ رکھے، تاکہ عوام کو یقین ہو کہ عدالتوں کے دروازے انصاف کے لیے کھلتے ہیں، انتقام کے لیے نہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos