
کہتے ہیں ” ہر کمالے را زَوال” ہر کمال کو زوال ہوتا ہے، عروج کے بعد زوال شروع ہوتا ہے۔ہمارے سیفی صاحب فارسی زبان کی خوبصورتی کے قائل بھی ہیں اور گھائل بھی مگر وہ اس ضرب المثل سے مکمل اتفاق نہیں کرتے۔مکمل اتفاق تو خیر وہ خود سے بھی نہیں کرتے۔سیفی صاحب کے دلائل میں وزن ہے یا نہیں ، یہ فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔جناب فرماتے ہیں ” ہر کمال کو ضروری نہیں زوال ہو اور ضروری نہیں کہ ہر زوال کے بعد عروج ہو”۔بعض لوگوں کا عروج بھی زوال جیسا ہوتا ہے اور بعض لوگوں کا زوال بھی عروج جیسا۔چند لوگ تمام عمر راج کرتے ہیں تو کچھ لوگ ایک لمحہ بھی جی نہیں پاتے۔بعض لوگوں کا عروج مستقل ہوتا ہے اور بعض لوگوں کا زوال نسلیں نگل جاتا ہے:۔
ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس بار اندھیرا میرے اندر سے اٹھا ہے
عروج و زوال کی بابت ہر شخص کو اپنے اپنے خیال پہ قائم رہنے کا حق حاصل ہے ۔ عروج کیا ہے؟ زوال کیا ہے؟ یہ کوئی طے شدہ بات نہیں ۔ ہر کسی کا اپنا پیمانہ ہے، اپنا معیار ہے۔عروج وزوال کا ذکر چل نکلا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فرقان کا ذکرنہ ہو،میزان کا ذکر نہ ہو، قرآن کا ذکر نہ ہو۔قرآن واضح الفاظ میں بتاتا ہے عروج کیا ہے زوال کیا ہے۔ انسان کا عروج متقی ہونے میں ہے۔اللہ تعالیٰ کا صالح بندہ ہونے میں ہے۔ نفس مطمنہ کا حصول ہی انسان کا اوج کمال ہے۔ جس شخص کو توفیق کسب حلال ہے، جو صاحب استقلال ہے،جسے لاحق خوف رب زوالجلال ہے، وہی با کما ل ہے، اسی کا بلند اقبال ہے ورنہ زندگی وبال ہے۔ بلند اقبال سے یا د آیا۔ ہمارے شاعر مشرق علامہ اقبال کا اقبال بھی سدا بلند رہا ہے۔اگرچہ اقبال کا اپنا کہنا ہے کہ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔ یہ صر ف کالم نگار کا ہی نہیں ، ہر صاحب علم ودانش کا خیال ہےکہ اقبال کا کلام لا زوال ہے۔ اقبال سچے عاشق رسول تھے۔ آپکی بصیرت کے سوتے ،سیرت نبی سے پھوٹتے ہیں۔ رسول اللہ کے عاشق تھے تو کلام اللہ کے انتہائی سنجیدہ طالب علم ۔ سیا لکوٹ کے بطل جلیل نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئیے وہ کچھ کیا ہے جو شاید کوئی اور نہیں کر سکا۔ ایک شاعر نے خود اعتراف کیا تھا کہ اگر جہنم سے سارے گناہ گار نکل جائیں تو برصغیر پاک وہند کے شعراء کی تعداد اتنی ہےاور شاعری ایسی ہے کہ دوزخ انہی سے بھر دی جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ قرآن مجید کی رائے بھی شعراء کی اکثریت کی بابت اچھی نہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اللہ کے محبوب بامقصد شاعری کو بہت پسند کرتے تھے۔ حضرت حسان بن ثابت کو شاعر رسول کہا جاتا ہے۔شاعری عربوں کا طرہ امتیاز تھی ۔ اسلام جہاں بھی پھیلا ،عربوں کی شاعری سے محبت بھی وہا ں پہنچی ۔ پاکستان تو ہے ہی اک شاعر کا خواب ۔ صوفیا کے شاعرانہ کلام نےکرہ ارض کے طول وعرض میں اسلام کے پھیلاؤمیں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔اقبال جیسے شاعر پر پوری انسانیت فخر کر سکتی ہے۔ اقبال کی شاعری، ساحری اور افکار قرآن کے احکامات کی تکرار ہیں ۔اقبال کے پیام کو دوام ہے، یہ پیام ماورائے گردش صبح و شام ہے۔ ابدیت کا جام ہے۔ اقبال کو سلام ہے، سلام ہے۔ تقدیر کے قاضی کا ازل سے فتوی ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ ہمارا ایمان ہے کہ “اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے”۔ عزت اور ذلت خدا لم یزل کے ہاتھ میں ہے۔ صوفیا کا عقیدہ ہے ” تمام انسانوں کے دل اللہ پاک کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ خالق کائنات کی رضا کے بغیر کو ئی بشر مخلوق کےدل میں سما نہیں سکتا ۔ عوام کے دل میں مستقل مقام وہ اپنے چنے ہوئے بندوں کو عطا کرتا ہے ۔ علامہ اقبال بھی اللہ تعالیٰ کے ایسےچنے ہوئے انسان ہیں جن کا اقبال بلند تھا، بلند ہےاور بلند رہےگا۔ علامہ اقبال کی زندگی تحصیلِ علم اورنیک نیتی کےثمرات کی زندہ مثال ہے۔اقبال جس دور میں پیدا ہوئے ، وہ دور بڑے لوگوں کا دور تھا۔ تقدیر اپنی فیاضی کے جو ہر دکھا رہی تھی۔ قائد اعظم محمدعلی جناح کا زمانہ بھی وہی تھا۔ہر مذہب اور ملت میں منتخب لوگ موجود تھے۔ وہ لوگ جو آج بھی بے مثال مانے جاتے ہیں۔ اقبال کا گھرانہ دردِدل کی دولت سے مالا مال تھا۔ دنیاوی اسباب توبہت سے لوگوں کے پاس تھے،اس گھر کا طرہِ امتیاز عشق رسولﷺ کا وہ جذبہ تھا جو قدرت صرف اپنے خاص بندوں کو عطا کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا، مگر اس کیلئے درکار محنت ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ ایک شاعر نے بجا کہا تھا ” یزید تو تاریخ کے ہر دور میں مل جاتے ہیں ۔ حسین ہر جگہ نہیں ملتا، حسین خدا بناتا ہے”۔ خلقت کا محبوب بننا فقط عطائے خداوندی سے ممکن ہے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں شیطان اور انسان میں ایک مقابلہ ہوا۔ حضرت انسان نے اپنے علم کی بنا پر شیطان کو شکست فاش دی۔ شیطان مردود ہوا، انسان ملائکہ کا مسجود ہوا۔ جہالت شیطان کا آزمودہ اور پسندیدہ ترین ہتھیار ہے، شیطان بڑا فنکار ہے، شیطان سب سے بڑا مکار ہے ، عالم پر اُس کا ہر داؤ مگر بے کار ہے، علم ابلیس کے خلا ف تلوار ہے۔ ۔ اقبال نے پوری زندگی حصول علم کو اپنا محبوب مشغلہ بنائے رکھا۔اقبال کی زندگی جہالت کے خلا ف جہاد کرتےگذری۔ انہیں یقین تھا کہ “ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے “۔وہ تمام عمر قوم کا دل نم اور غم کم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جہالت کے خلاف جہاد آج بھی زورو شور سے جاری ہے۔ اقبال کے افکار جہاں جہاں پہنچتے ہیں، جہالت کا قلع قمع ہو جاتا ہے ۔ اقبال آفاقی شاعر ہیں، انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہیں۔ ماضی، حال، مستقبل، مشرق، مغرب، شمال، جنوب ، ہر موسم، ہر خطے، ہر مذہب کے شاعر ہیں۔ اقبال عظمت انساں کے شاعر ہیں اور خود عظیم ہیں ۔ اُن کے افکار میں جدت ہے، خلوص کی شدت ہے، جذبے کی حدت ہے۔ فنا اور بقا کے سوال کا اس کمال سے جواب دیتے ہیں کہ اُن کے اپنے افکار لافانی ہو جاتے ہیں۔ الہامی کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تخلیق آدم کا بنیادی مقصد کا ئنات میں تفکر اور تدبر ہے۔اقبال اس ضمن میں میراث آدم ؑکا حق ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تمام عمر کائنات کی وسعتوں میں غور و فکر کرتے رہے۔ اپنے قاری کو بھی رموز کائنات سے آگاہی کے اس سفر میں ہم سفر بناتے ہیں۔ قرآن پاک کا مطالعہ بتاتا ہےکہ اہل علم سے سوال کرنا حصول علم کا بہترین ذریعہ ہے ۔ اقبال علم و دانش کے اس رتبے پر فائز ہیں،جہاں عقل کے سوالوں کے ساتھ ساتھ روح کےکرب کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ اقبال کا کلام تسکین قلب و نظر کا بہترین ذریعہ ہے۔ اُن کا ہر لفظ نگینہ ہے، علم کا خزینہ ہے، ایک ایسا دفینہ ہے جس کے اسرار صاف دل لوگوں پر منکشف ہوتے ہیں۔ اقبال بھی اقبال سے آگاہ تھے یا نہیں، ہم نہیں جانتے مگر ہماری قوم کی اکثریت اقبال اور کلام اقبال سے آگاہ نہیں ۔ ہماری پسماندگی کی وجہ کتاب اللہ سے دوری ہے۔ کلام اللہ کی تفہیم کے لئیے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے مطالعہ اقبا ل ضروری ہے۔ ہم پاک وطن کے قیام کیلئے علامہ اقبال کے مقروض ہیں ۔ استحکام پاکستان کیلئے کلام اقبال کا فہم بنیادی ضرورت ہے۔خالق کائنات کا حکم ہے ”احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں”۔ آئیے اقبا ل کے احسان کی قدر کریں۔ پاکستان اور کلام اقبا ل سے پیار کریں ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
1 thought on “کمال ، زوال، خیال اور اقبال”
بہت ہی عمدہ تحریر