خیبر پختونخوا کا تعلیمی بحران سنجیدہ اصلاحات کامتقاضی

[post-views]
[post-views]

نعمان علی شاہ

خیبر پختونخوا (کے پی) اس وقت تعلیمی پالیسی کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں قلیل مدتی تجربات کو اصلاحات کا نام دیا جا رہا ہے لیکن یہ دراصل نظام کی گہری خرابیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ صوبائی حکومت نے آٹھویں جماعت تک پرانے سالانہ امتحانی نظام کو ختم کرکے دو سمسٹرز پر مبنی ماڈل متعارف کرایا ہے۔ حکومتی مؤقف ہے کہ اس تبدیلی سے طلبہ پر بوجھ کم ہوگا، سالانہ امتحانات کے طویل وقفے ختم ہوں گے اور چھوٹی درسی کتابوں سے بستے ہلکے ہوجائیں گے۔ بظاہر یہ قدم معقول اور جدید دکھائی دیتا ہے، مگر ماہرینِ تعلیم خبردار کرتے ہیں کہ یہ اقدام وژن سے نہیں بلکہ مجبوری سے پیدا ہوا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر طلبہ مڈل اسکول امتحانات میں ناکام ہورہے ہیں، اور محض کیلنڈر میں تبدیلی سے اس بحران پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔

ویب سائٹ

دوسرا اور زیادہ متنازعہ قدم ہزاروں سرکاری اسکولوں کی نجکاری یاتجویز یہ ہے کہ خدمات کو نجی شعبے کے سپرد کیا جائے۔۔ اس اقدام سے تدریسی عملے میں سخت تشویش پائی جاتی ہے، کیونکہ اس سے ان کی ملازمتوں کے تحفظ اور روزگار کو براہِ راست خطرہ لاحق ہے۔ اگر یہ عمل بغیر مؤثر نگرانی کے کیا گیا تو اس سے تعلیمی عدم مساوات بڑھے گی، مفت تعلیم کا اصول کمزور ہوگا اور اسکول منافع کمانے والے ادارے بن جائیں گے بجائے اس کے کہ وہ عوامی خدمت انجام دیں۔

یوٹیوب

یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اساتذہ کی غفلت، غیر حاضری اور سستی نے تعلیمی زوال میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ گھوسٹ اساتذہ تنخواہیں لیتے ہیں مگر کلاس میں کبھی نظر نہیں آتے۔ دیہی اسکولوں کی عمارتیں خستہ حال ہیں، صفائی کا فقدان ہے اور بیٹھنے کے لیے مناسب انتظام بھی نہیں۔ اسی وجہ سے والدین اکثر کم وسائل والے نجی اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہاں کم از کم تدریس تو باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ اس پس منظر میں نجکاری کوئی اصلاح نہیں بلکہ حکومت کی اپنی ناکامی کا اعتراف ہے۔

ٹوئٹر

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری نجی شعبے کو منتقل کرنے کے بجائے خود تعلیمی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرے۔ اس کے لیے بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے اساتذہ کے احتساب کو یقینی بنایا جائے، کارکردگی کا جائزہ، کلاس روم کی نگرانی اور غیر حاضری پر سخت کارروائی معمول بننی چاہیے۔ دوسرا، بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں بیت الخلاء،چار دیواری اور کلاس رومز نہ ہونے کی وجہ سے بچوں، خصوصاً بچیوں، کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ تیسرا، نصاب میں تبدیلی کے ساتھ اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں کی تربیت دی جائے تاکہ رٹّے بازی کے بجائے حقیقی فہم کو فروغ ملے۔

فیس بک

یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ تعلیم صرف صوبائی معاملہ نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے۔ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 25-اے پانچ سے سولہ برس کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ ذمہ داری نجی ٹھیکیداروں یا عطیہ دہندگان پر نہیں ڈالی جا سکتی، یہ ریاست کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اگر کے پی حکومت اس فرض کو افادیت کے نام پر چھوڑ دیتی ہے تو یہ ایک خطرناک مثال ہوگی اور لاکھوں بچے ایک غیر مساوی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظام کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔

ٹک ٹاک

آگے بڑھنے کا راستہ احتساب اور سرمایہ کاری دونوں کا امتزاج ہے۔ اسکولوں کو بنیادی سہولیات سے آراستہ کیا جائے، اساتذہ کی تربیت اور نگرانی کی جائے، اور طلبہ کا ایسا جائزہ لیا جائے جو ان کی سمجھ بوجھ کو پرکھے نہ کہ صرف یاد کرنے کی صلاحیت کو۔ ٹیکنالوجی شہری و دیہی فرق کو کم کر سکتی ہے لیکن صرف اسی صورت میں جب اسے سوچ سمجھ کر استعمال کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر، اصلاحات کا مقصد عوامی تعلیم کو مستحکم کرنا ہونا چاہیے، کمزور کرنا نہیں۔ محض نجکاری وقتی ریلیف تو دے سکتی ہے لیکن نظامی اصلاح کے بغیر یہ خلیج کو اور گہرا کرے گی۔

انسٹاگرام

کے پی کا تعلیمی بحران صرف انتظامی ناکامی نہیں بلکہ اخلاقی ناکامی بھی ہے۔ ہر غلط پالیسی ایک نئی نسل کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔ حکومت کو فیصلہ کن اور دانشمندانہ اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ اصلاحات احتساب، مساوات اور سرمایہ کاری پر مبنی ہوں، نہ کہ وقتی حل پر۔ اگر تعلیم کو محض آؤٹ سورس کرنے کا مسئلہ سمجھا گیا تو یہ صوبہ نہ صرف اپنے اسکولوں کو بلکہ اپنی نئی نسل کو بھی کھو دے گا۔

واٹس ایپ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos