تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم
چند دن پہلے موٹر وے پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ میں اور میرے دوست سوزوکی کل ٹس پر سوار تھے اور موٹروے کی مقرر کردہ رفتار پر سفر کر رہے تھے۔ ڈرائیونگ میرے دوست کر رہے تھے کہ اچانک پیچھے سے ایک فارچونر آئی اور زناٹے سے ہمیں کراس کر گئی۔ میرے دوست جذباتی ہو گئے اور ریس پر پورا پاؤں دبایا اور گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے اس کی جرات ہمیں یوں کراس کرے۔ میں نے جواب دیا، یار اس کی مرضی ہے اس کے پاس بڑی گاڑی ہے، ہو سکتا ہے اس کو کہیں جلدی پہنچنا ہو ہمیں اس کی وجہ سے اپنی زندگی خطرے میں نہیں ڈالنی چاہیے۔ ہماری گاڑی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن وہ نہیں مانے اور گاڑی کھینچ رکھی۔ فارچونر کو تو ہم پکڑ نہیں پائے لیکن تھوڑی دیر میں ہماری گاڑی گرم ہو گئی اور ہم گاڑی روکے انجن ٹھنڈا کر رہے تھے اور چار گھنٹے ضائع کر چکے تھے۔ میرے دوست کی طرح اکثر لوگ مقابلہ میں اپنا نقصان کرتے ہیں۔
قدرت نے ہر انسان کو مختلف بنایا ہے لیکن انسان نے اپنی آسانی کے لیے یا معاشرے کی تعمیر کے واسطے انسان کو چند خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ یہ خانے بنانا ضروری ہیں کیونکہ نظام ان کے بغیر کام نہیں کرتا مگر یہاں یہ بات قابل غور ہے کوئی بھی انسان ایک خانہ میں فٹ نہیں ہوتا بلکہ قدرت نے اس کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے اور اگر انسان چاہے اپنی صلاحیت کی بنا پر کسی خانے میں بھی جگہ بنا سکتا ہے۔
عمومی طور پر ایک انسان دوسرے سے مقابلہ کر کے اپنے آپ کو بہتر یا کم تر محسوس کرتا ہے اور یہ ہوتا ہے کہ ہر انسان کی صلاحیت میں فرق ہو سکتا ہے کسی ایک پہلو میں کوئی آپ سے آگے بھی ہو اور کسی میں پیچھے بھی ضرور ہو گا ہم عمومی طور پر ایک پہلو کی وجہ سے اپنے آپ کو تمام پہلو میں بہتر یا کم تر قرار دیتے رہتے ہیں۔ قدرت نے مقابلہ کی صلاحیت اس لیے انسان کو عطا کی ہے کہ وہ مختلف قسم کے خطرات کو بھانپ سکے اور ان سے نبرد آزما ہو سکے۔ اس صلاحیت کی بدولت ہی انسان اب تک اپنی بقا کا سامان کرتا آیا ہے۔
آج کے جدید دور میں جہاں سوشل میڈیا کا شور و غوغا ہے لوگ اپنی بہترین تصویر یا زندگی کے اہم لمحات شیئر کرتے ہیں اور اپنے منفی لمحات چھپاتے ہیں وہاں ہم ان کو دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور اپنی زندگی کو کوستے رہتے ہیں۔ جیسے کہ پہلے بیان کیا گیا ہے ہر انسان مختلف پیدا ہوا ہے، مختلف ماحول میں پرورش پاتا ہے، مختلف صلاحیت لے کر آتا ہے اور اس سب میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ رنگ، نسل، زبان، خاندانی پس منظر سب اس کی پیدائش سے جڑا ہے۔ اس لیے ان باتوں پر کڑھنا اور ناراض ہونا بالکل بے سود اور اس پر مغرور کرنا یا احساس کمتری کا احساس پیدا ہونا کئی مسائل کو جنم دیتا ہے بلکہ بعض مرتبہ ڈپریشن کا باعث بھی بنتا ہے۔
جمز کرس اپنی کتاب” فائی نائٹ اینڈ ان فائی نائٹ گیمز” میں بتاتے ہیں کہ محدود مقابلہ میں انسان صرف ایک مقابلہ پر زور دیتا ہے جیسے کہ آپ نے اپنی جماعت میں اول آنا ہے۔ اس مقابلہ میں آپ کے تمام ہم جماعت آپ کے مقابل بن جاتے ہیں اور آپ کے دل میں ان کے لیے نفرت اور دشمنی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اگر اس مقابلہ میں آپ ہار جاتے ہیں تو پریشان رہتے ہیں۔ جس نے آپ کو شکست دی ہے اس کو بعض مرتبہ ختم کرنا چاہتے ہیں اور اپنا نقصان بھی کر لیتے ہیں۔
جمز کرس لامحدود مقابلہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس میں آپ کسی سے مقابلہ نہیں کرتے بلکہ اس قسم کے ڈرگٹ چنتے ہیں جیسے میں بہترین لکھاری بنو گا یا میں بہترین استاد بنو گا وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح آپ کا مقابل آپ خود بن جاتے ہیں اور اپنا آج اپنے کل سے بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ شفٹ لوگوں پر توجہ دینے کی بجائے آپ کو اپنے آپ پر توجہ کی جانب مبذول کراتی ہے اس میں آپ اپنے فریق کی مدد کرنے اور اس سے مدد لینے سے بھی نہیں کتراتے۔
آپ ان لوگوں کی بھی عزت کرتے ہیں جو آپ پر تنقید کرتے ہیں یا آپ کا راستہ روکنے میں لگے رہتے ہیں اس طرح وہ آپ کو بہتری کی طرف لے جاتے ہیں اور آپ نئے نئے راستے اختیار کرتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم خود کو لامحدود مقابلہ کے لیے تیار کریں اور اپنا وقت دوسروں پر صرف کر کے کڑھتے نہ رہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جب آپ لامحدود مقابلہ کی تیاری کرتے ہیں تو محدود مقابلہ میں کامیابی مشکل نہیں رہتی۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.