ایک تاریخی پیش رفت میں، کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) جمعہ کو عراقی کردستان میں ایک علامتی تقریب کے ذریعے اپنے ہتھیار ڈالنے کے عمل کا آغاز کر رہی ہے۔ یہ قدم ترک ریاست کے ساتھ چار دہائیوں پر محیط خونی تنازع کے خاتمے کی سب سے پرامید کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
تقریب سلیمانیہ کے قریب سخت سی کیورٹی میں منعقد ہو گی، اور ہتھیار ڈالنے کا مکمل عمل موسم گرما بھر جاری رہنے کی توقع ہے۔ یہ اعلان پی کے کے کے قید رہنما عبداللہ اوجلان کی اپیل کے بعد سامنے آیا، جنہوں نے تنظیم سے کہا کہ وہ مسلح جدوجہد کو ختم کر کے جمہوری سیاست کا راستہ اختیار کرے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس پیش رفت کو “ہمارے ملک کے پاؤں پر پڑی خونی زنجیروں کو کاٹ کر پھینکنے” کے مترادف قرار دیا۔ پی کے کے کی مسلح تحریک 1984 میں شروع ہوئی اور اب تک 40 ہزار سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے۔ ترکی، امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
یہ فیصلہ اکتوبر 2024 میں اس وقت کے بعد ممکن ہوا جب قوم پرست رہنما دولت باہچی لی نے “دہشت گردی سے پاک ترکی” مہم کا آغاز کیا اور اوجلان سے تنظیم کے خاتمے کی اپیل کی۔ بعد ازاں، اوجلان کا پیغام دو کرد ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمان میں پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا تھا کہ پی کے کے اپنا تاریخی مشن مکمل کر چکی ہے اور اب کرد مسئلے کو جمہوری سیاست سے حل کیا جا سکتا ہے۔
ابتدائی مرحلے میں چند پی کے کے ارکان سلیمانیہ کے قریب ہتھیار ڈالیں گے، بعد ازاں وہ اپنی بیسز پر واپس جائیں گے۔ مکمل عمل ترک، عراقی اور کرد علاقائی حکومتوں کے تعاون سے آگے بڑھے گا۔
عبداللہ اوجلان، جو 1999 سے استنبول کے جنوب مغرب میں واقع جزیرہ امرالی پر تنہائی میں قید ہیں، نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا: “میں سیاست اور سماجی امن پر یقین رکھتا ہوں، نہ کہ ہتھیاروں پر۔”
ترکی کی پارلیمنٹ میں اب ایک کمیشن قائم کیا جائے گا جو آئندہ اقدامات کے بارے میں سفارشات دے گا۔ تاہم موسم گرما کی تعطیلات کے باعث فوری قانون سازی کی توقع نہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ امن عمل آئندہ آئینی اصلاحات اور صدر اردوان کی ممکنہ 2028 کی انتخابی مہم پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔