Premium Content

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق

Print Friendly, PDF & Email

لفظ و معنی کے جادوگر، شاعر بے مثال میر تقی میرؔ اردو غزل کا وہ آسیب ہیں کہ جو اس کی جکڑ میں آجاتا ہے، تا زندگی وہ اس کا مطیع رہتا ہے۔ میرؔ نے ان لوگوں سے بھی خراج عقیدت حاصل کیا جن کی اپنی شاعری میر سے بہت مختلف تھی۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ زمانہ کے مزاجوں میں تبدیلیوں کے باوجود ان کی شاعری کی عظمت کا سکہ ہر عہد میں جما رہا۔ ناسخ ہوں یا غالب، قائمؔ ہوں یا مصحفیؔ، ذوقؔ ہوں یا حسرت موہانی، میر کے عقیدت مند ہر زمانہ میں رہے۔ ان کا اسلوب ناقابل تقلید ہے پھر بھی ان کی طرف لپکنے اور ان کے جیسے شعر کہہ پانے کی حسرت ہر عہد کے شاعروں کے دل میں بسی رہی۔

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق

عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق

عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق

عشق معشوق عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق

گر پرستش خدا کی ثابت کی
کسو صورت میں ہو بھلا ہے عشق

دل کش ایسا کہاں ہے دشمن جاں
مدعی ہے پہ مدعا ہے عشق

ہے ہمارے بھی طور کا عاشق
جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق

کوئی خواہاں نہیں محبت کا
تو کہے جنس ناروا ہے عشق

میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہو
کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos