تحریر: اکرم خرم
پانچ اگست 2023کو مشترکہ مفادات کونسل نے متفقہ طور پر ساتویں مردم شماری کی منظوری دی جس کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی 241.49 ملین ہو گئی ہے۔ اس سے قبل حال ہی میں سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم شہباز شریف اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے تھے کہ انتخابات نئی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر ہوں گے۔ اس انٹرویو اور مردم شماری کی منظوری سے یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ کیا 2023کی مردم شماری کی مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری کے بعد نئی انتخابی حلقہ بندیاں ہونا لازم ہیں یا نہیں؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اس سلسلے میں اب تک کم از کم دو اجلاس منعقد کر چکا ہے لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق ابھی تک الیکشن کمیشن اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پایا۔ آئین پاکستان 173 کے آرٹیکل 51کے ذیلی آرٹیکل 5کے مطابق قومی اسمبلی میں ہر صوبے اور وفاقی دارالحکومت کے لیے نشستوں کا تعین سرکاری طور پر شائع ہونے والی گزشتہ آخری مردم شماری میں دی گئی آبادی کی بنیاد پر ھو گا جبکہ اگر 5 اگست2023 کو منظور ہونی والی مردم شماری کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو قومی اسمبلی کی 266 عام نشستوں میں 127.68 ملین آبادی کی بنا پر پنجاب کے حصّہ میں 141 جبکہ 55.69 ملین آبادی کی بنا پر سندھ کے حصّہ میں 61 نشستیں آتی ہیں۔ اسی طرح 40.85ملین آبادی کی بنا پر خیبر پختونخوا کے حصّہ میں 45نشستیں، 14.89 ملین آبادی کی بنا پر بلوچستان کے حصّہ میں 16 اور 2.36ملین آبادی کی بنا پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے حصّہ میں 3نشستیں آتی ہیں۔
پچھلی مردم شماری کی بنیاد پر بھی نشستوں کی یہی تعداد متعین ہوئی تھی یعنی نئی 2023 کی مردم شماری میں گنی گئی آبادی کی بنا پر چاروں صوبوں اور وفاقی دارلحکومت کی نشستوں کی تعداد وہی رہے گی جو اس وقت آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 میں دی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آئین پاکستان کے اس آرٹیکل میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ آرٹیکل 51کے علاوہ ایک اور آرٹیکل 222 میں حلقہ بندیوں کا ذکر ہے جس کے مطابق پارلیمنٹ آئین کے تابع رہتے ہوے دیے گئے دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ حلقوں کی حد بندی بشمول مقامی حکومتوں کے انتخابی حلقوں کی حد بندی کے لیے قانون وضع کر سکتی ہے، لیکن ایسے کوئی بھی احکام آئین میں دیے گئے کمشنر یا الیکشن کمیشن کے اختیارات کو سلب یا کم نہیں کر سکتے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
پارلیمنٹ اپنے اس آئینی اختیار کو الیکشن ایکٹ 2017میں حلقہ بندیوں کے ضمن میں باب نمبر 3وضع کر کے استعمال کر چکی ہے۔ میری رائے کے مطابق آئین پاکستان میں آرٹیکل 51کے ذیلی آرٹیکل 5 میں سرکاری طور پر شائع ہونے والی آخری مردم شماری میں دی گئی آبادی کی بنیاد پر چاروں صوبوں اور وفاقی دارلحکومت کے لیے قومی اسمبلی کی نشستوں کے تعین کے علاوہ کوئی اور شق نئی مردم شماری کی بنیاد پر از سر نو حلقہ بندیوں کا تقاضا نہیں کرتی۔ البتہ الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 17 کی ذیلی دفعہ 2 اس کا واضح تقاضا کرتی ہے، جس کے مطابق الیکشن کمیشن سرکاری طور پر شائع ہونے والی ہر مردم شماری کے بعد انتخابی حلقوں کی حد بندیاں کرے گا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے لیے کم از کم چار ماہ کا وقت درکار ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017 اور الیکشن رولز 2017 میں دیے گے نئی حلقہ بندیوں کے مختلف مراحل کے لیے درکار وقت کا جائزہ لیا جائے تو الیکشن کمیشن کا موقف درست لگتا ہے۔ اس طرح نئی حلقہ بندیوں کی صورت میں الیکشن کمیشن کو انتخابی پروگرام کے اعلان سے قبل کم از کم چار ماہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے درکار ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن فوری طور پر نئی حلقہ بندیوں کے پروگرام کا اعلان کر بھی دے تو نئے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے کم از کم 6 ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ جبکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 224 کے مطابق نئے عام انتخابات 90 دن کی مدّت کے اندر کروانا لازم ہے۔ اس طرح اب جو آئینی اور قانونی صورت حال سامنے آتی ہے اس کے مطابق آئین نئے انتخابات 90دن کے اندر کروانا لازم قرار دیتا ہے جبکہ الیکشن ایکٹ کے مطابق چونکہ 2023 کی مردم شماری کے نتائج سرکاری طور پر منظور اور شائع ہو چکے ہیں اس لیے نئی حلقہ بندیاں کروانا لازم ہے، جس کے لیے الیکشن پروگرام سے اضافی 4ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ طے شدہ اصول قانون کے مطابق آئین اور کسی دیگر قانون میں کسی شق میں اختلاف کی صورت میں آئین کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں اعلی عدالتوں کے بے شمار نظائر موجود ہیں۔ اس سلسلہ میں تازہ ترین فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات کے حوالہ سے مقدمہ بعنوان محمّد سبطین خان وغیرہ بنام الیکشن کمیشن آف پاکستان وغیرہ میں 4 اپریل 2023 کو جاری کیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 218 کے ذیلی آرٹیکل 3کے تحت اسے تفویض کردہ اختیارات یا الیکشن ایکٹ 2017 کو جواز بنا کرآرٹیکل 224 میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے مہیا کردہ وقت میں کسی بھی طرح توسیع نہیں کر سکتا۔ اس طرح میری رائے میں عام انتخابات 90روز کے اندر کروانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئینی ذمّہ داری ہے اور حلقہ بندیوں یا کسی اور جواز کی بنیاد پر اس مدّت میں کسی بھی طرح توسیع آئین کی خلاف ورزی تصور ہو گی۔