وفاقی حکومت نے کا بینہ ڈویژن اسلام آباد کے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے غلام محمود ڈوگر سی سی پی او لاہور کو معطل کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کے ماتحت کام کرنے والے افسر کو اگلے احکامات تک فوری طور پر معطل کیا جاتا ہے ۔
تاہم بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ماتحت کام کرنے والے وفاقی افسر کو معطل کر سکتی ہے؟
دراصل غلام محمود ڈوگر وفاقی حکومت کے پولیس افسر ہیں۔ ان کی سروس کے شرائط و ضوابط وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہیں۔ لہذا، وفاقی حکومت کے پاس وفاقی ملازم کی شرائط و ضوابط کی بابت فیصلہ کرنے کی تمام قانونی اہلیت موجود ہے۔ تاہم ، یہ بنیادی سوال نہیں ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا وفاقی پولیس افسر کو صوبے کے معاملات سے منسلک پوسٹ پر قانونی طور پر تعینات کیا جا سکتا ہے؟
پی ایس پی وفاقی افسران کو صوبوں میں پولیس رولز 1985 کے تحت تعنیات کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ رولز آئین کے آرٹیکل 240 (ب) اور متعلقہ آرٹیکلز 97، 129 اور 137 کے واضح طور پر مخالف ہیں۔
صوبے کے معاملات سے منسلک تمام پوسٹیں صوبائی حکومت کی آئینی اتھارٹی کے تحت ہوتی ہیں۔ لہذا صوبائی پوسٹس پر وفاقی افسران کی تعیناتی آئین شکنی اور صوبائی خودمختاری پر سمجھوتہ کرنے کے زمرے میں آتی ہے۔
صوبائی عہدوں پر وفاقی سرکاری ملازمین ایک آئینی تضاد پیدا کرتے ہیں کیونکہ یہ افسران صوبائی قانون یا صوبائی حکومت کے تحت نہیں ہوتے ہیں۔ لہذا، وفاقی حکومت وفاقی افسران پر اپنا اختیار استعمال کرتی ہے۔ ان حالات میں صوبائی حکومتوں کو صوبائی پولیس سروس قائم کرنے کی آئینی ضرورت ہے تاکہ انتظامیہ کے دونوں لازم و ملزوم حصوں کو یکجا کیا جا سکے۔
مزید برآں وفاقی سرکاری ملازمین کو صوبے کے معاملات سے منسلک عہدوں پر تعنیات کرنا صوبائی حکومت کو غیر متعلقہ بنا دیتا ہے۔ آئینی طور پر یہ کیسے ممکن ہے کہ وفاقی افسران کسی صوبے کے معاملات سے منسلک اسامیوں پر تعنیات ہوں؟
فرض کریں کہ اگر وفاقی حکومت صوبائی پوسٹس پر تعنیات تمام وفاقی افسران کو معطل کر دے تو صوبائی حکومت انتظام وانصرام کیسے چلائے گی؟
یہ ہی بنیادی آئینی تضاد ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ سول سروس کی کلونیل سکیم ” صوبائی پوسٹس کو وفاقی سروسز کے لیے مختص کرنا ” کی بجائے آئین کے مطابق صوبائی سروسز قائم کی جائیں ۔