منشی پریم چند افسانوی ادب میں ایک ستون کی اہمیت رکھتے ہیں۔ زیر نظر افسانہ ’’لالہ گھسیٹا رام‘‘ ان کی کتاب ’’پشاورایکسپریس‘‘ میں شامل ہے جولاہور سے شائع ہوئی۔ بعدازاں یہی کتاب بھارت سے ’’ہم وحشی ہیں‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔نام تبدیل کرنے کی وجہ ناقابل فہم ہے۔ اس کتاب میں کل سات افسانے ہیں جو1947 کی تحریک آ زادی سے متاثر ہو کر لکھے گئے۔’’لالہ گھسیٹا رام‘‘ اس مجموعے کا آ خری افسانہ ہے جو فسادات اور افراتفری کے عالم میں ہندو ذہنیت کا عکاس ہے۔قاری منشی پریم چند کی حقیقت نگاری پہ عش عش کر اٹھتا ہے۔
ساندہ کلاں ضلع لاہور کے نیک دل آڑھتی لالہ گھسیٹا رام کو کون نہیں جانتا ،آپ ساندہ کلاں کے رئیس اعظم ہیں۔ سارا گاؤں آپ کا مقروض ہے۔ گاؤں کے سارے مکان آپ کے ہاں گروی پڑے ہوئے ہیں۔ گاؤں کی ساری بہو بیٹیوں کا زیور آپ کے ہاں رہن ہے۔ اس پر آپ کی شرافت کا یہ حال ہے کہ آج تک کبھی بھولے سے بھی کسی مقروض کی قرقی نہیں ہونے دی۔ اگر وہ سود نہیں دے سکا تو آپ نے سود نہیں لیا۔ انتظار کرتے کرتے کئی سال بیت گئے۔ پر آپ نے نہیں لیا۔ الٹا اپنے پاس سے کچھ اور روپیہ دیکر اسے کاروبار پر لگایا۔ اس طرح سینکڑوں لوگ آپ کی دریا دلی سے فیضیاب ہوتے رہے۔ اگر کسی نے جھگڑا بھی کیا تو آپ نے ہمیشہ طرح دی اور بات کوٹال گئے۔ اگر معاملہ عدالت تک پہنچا تو آپ نے بادل ناخواستہ اس کے خلاف ڈگری لے لی لیکن اس کی تعمیل کبھی نہیں کرائی۔ لالہ گھسیٹا رام کو ہمیشہ عدالت سے ڈگری مل جاتی تھی کیونکہ عدالت بھی جانتی تھی کہ لالہ گھسیٹارام معاملہ کا سچا ہے۔
لالہ گھسیٹا رام کے مزاج میں رواداری گھٹی میں پڑی ہے۔ ساندہ کلاں میں ہندو کم ہیں اور مسلمان زیادہ ہیں۔ یہ لوگ اپنے کرموں کی وجہ سے ہمیشہ ہندوئوں سے زیادہ ہی مقروض، زیادہ ضرورت مند، زیادہ پریشان حال دیکھے گئے۔ لالہ گھسیٹارام اپنے گاؤں کے سارے مسلمانوں کو جانتے ہیں اور ان سے بڑی ملاطفت اور محبت سے پیش آتے ہیں۔ لالہ گھسیٹا رام کے منہ سے کبھی کسی مسلمان نے کڑوے بول نہیں سنے بلکہ بہت سے ہندو تو یہ کہتے سنے گئے کہ لالہ گھسیٹارام ہمیشہ مسلمانوں کی طرفداری کرتے ہیں۔ گو اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ لالہ گھسیٹارام راسخ العقیدہ ہندوہیں۔ وہ ہر روز پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ اپنے گھر میں انہوں نے مندر تعمیر کرا رکھا ہے۔ اس میں روز صبح و شام دو گھنٹے بیٹھ کر اپنے معبود کو یاد کرتے ہیں۔ وہ ہندو ہیں مسلمان نہیں ہیں لیکن مسلمانوں سے بڑی رواداری برتتے ہیں۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
ابھی پچھلے سال انہوں نے مسجد کے لئے چندہ دیا تھا۔ جمے موچی کا انتقال ہوا تھا اور اس کی جوان بیٹی اکیلی رہ گئی تو اس کی حفاظت بھی لالہ گھسیٹارام ہی نے کی تھی اور خود اپنے ہاتھوں سے اس کی شادی ساندہ خورد کے ایک شریف نیک چلن موچی سے کر دی تھی۔ لالہ گھسیٹارام کبھی کبھی اس جوڑے کو دیکھنے کیلئے ساندہ خورد جایا کرتے تھے اور اس لڑکی کی ہتھیلی پردوچار روپے دھر آتے۔ ساندہ خورد کا مسلمان نمبردار بھی لالہ گھسیٹارام کا مقروض تھا اور ہمیشہ لالہ کی شرافت کا پنچایت میں سنہری الفاظ میں بیان کرتا تھا۔
لالہ گھسیٹارام کی دو بیویاں مر چکی تھیں ان سے چھ سات لڑکے پالے تھے جواَب جوان ہو چکے تھے، پھر لالہ گھسیٹارام نے تیسری شادی کی تھی اور سفید مونچھوں پر خضاب لگایا تھا۔ مونچھوں پراور سر کے بالوں میں اور وہ اکثر ساندہ کلاں کے حکیم محمد وارث علوی سے دوا لے کے کھاتے رہتے تھے۔ اس عمر میں بھی ان کا رنگ تانبے کی طرح چمکتا تھا اور وہ صبح و شام چار چھ میل پیدل سیر کرنے جاتے، سیر کے اوقات میں وہ اکثر مغربی کنویں پر ضرور ٹھہرتے اور گھڑی دو گھڑی اپنے گاؤں کی بہو بیٹیوں اور ماوں سے بات چیت کرکے ان سے ان کے گھر حالات پوچھتے اور ان کی تکلیف میں حصہ بٹاتے۔ لالہ گھسیٹا رام کی ذات پر گاؤں کی عورتوں کو بڑا اعتماد تھا۔ وہ اکثر دکان پر آتے یا راستے ہی میں انہیں آتے جاتے دیکھ کر ان کا راستہ روک لتیں اور ان سے نجی معاملات میں مشورہ کی طلبگار ہوتیں۔ تین شادیاں کرکے لالہ گھسیٹارام گھر کے معاملات پر بڑی قدرت حاصل کر چکے تھے اس لئے ان کے مشورے عورتیں بڑی خوشی سے قبول کر لیتی تھیں۔ کئی گھرانوں کے برسوں کے پرانے جھگڑے لالہ گھسیٹارام نے اس خوش اسلوبی سے طے کردیے کہ دن رات لوگ ان کا جَس گاتے تھے۔
لالہ گھسیٹارام دسہرہ اور عید بڑی دھوم دھام سے مناتے تھے اور دونوں تقریبوں پر مٹھائی بانٹتے تھے۔ وہ مسلم لیگ کو چندہ دیتے تھے۔ کانگریس کو بھی اور سرکاری وارفنڈ میں بھی انہوں نے ایک معقول رقم ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کی معرفت بھیجی تھی جس کے صلہ میں انہیں سرکار عالی نے رائے صاحب کا خطاب عنایت فرمایا۔ اس موقع پر ساندہ کلاں کے ہر فرد نے بڑی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ اور گاؤں کی عورتوں نے خوشی سے ڈھولے گائے تھے اور ساندہ خورد کے میراثیوں اور بھانڈوں نے جو لالہ گھسیٹارام کے مقروض تھے گاؤں والوں کو مفت تماشادکھایا تھا۔ اس لئے تھوڑے دنوں کے بعد ہی جب ساندہ کلاں میں لوکل بورڈ بنا تو لالہ گھسیٹارام متفقہ رائے سے اس کے صدر مقرر ہوئے۔ تھوڑے دنوں میں لوکل بورڈ اور پنچایتی کمیٹی اور کواوپریٹو بنک میں ہر شخص لالہ گھسیٹارام کے گن گانے لگا۔ کواپریٹو بنک تو ایک طرح سے لالہ گھسیٹارام کا نجی بنک ہو گیا کیونکہ اس میں سب سے زیادہ حصص لالہ گھسیٹارام کے تھے۔
دوسرے گاؤں والوں کو ایک دوسرے پر اتنا اعتماد نہیں تھا جتنا لالہ گھسیٹارام پر، تھوڑے ہی دنوں میں لالہ جی کی شہرت ساندہ کلاں اور ساندہ خورد سے آگے بڑھ کر موضع جدوکے میں پہنچ گئی۔ اس موضع میں روئی کی فصل بہت اچھی ہوتی تھی اور شیخ عمر علی اور لالہ پر مانند اس کا بھگتان کرتے تھے مگر اب موضع جدوکے بھی لالہ گھسیٹارام کے گن لگانے لگا۔ یہاں لالہ نے آڑھت کی ایک دکان کھول دی تھوڑے ہی عرصہ میں گاؤں والے جو اس سے پہلے شیخ عمر علی اور لالہ پر مانند کے مقروض تھے۔ لالہ گھسیٹارام کے مقروض ہو گئے۔ ان لوگوں میں خود شیخ عمر علی اور لالہ پر مانند بھی بہت جلد شامل ہو گئے۔
پندرہ اگست کے بعد لالہ گھسیٹارام نے ساندہ کلاں چھوڑ دیا۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح اب کے بھی بڑی ہوشیاری سے کام لیا تھا۔ وہ معدود ے چند لوگوں میں تھے جنہوں نے بڑھتے ہوئے طوفان کا اندازہ کر لیا تھا چنانچہ انہوں نے ضلع ہوشیار پور میں ایک چھوٹے سے قصبے سدرنگ میں آڑھت کی ایک دوکان کھول لی تھی اور جالندھرے کے ایک بنک میں اپنا کھاتہ بھیج دیا تھا اور اپنی تینوں بیویوں کے زیور اور سرکاری تمسک اور جنگی قرضے کی رسیدیں وغیرہ وغیرہ۔ یہاں پر ان کے پاس لوگوں کے گروی رکھے ہوئے زیورات اور دوسرے کاغذات اور پچاس ہزار روپے کی رقم ہی باقی رہ گئی تھی۔
جب لالہ گھسیٹارام ساندہ کلاں چھوڑنے لگے تو انہیں گاؤں والوں نے رو روکے روکا مگر وہ نہیں رکے اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے سارے زیور، ان کے کاغذات عورتوں کو ایک ایک کرکے گن گن کے واپس کردیئے اور نوٹوں کی گڈیوں کو اپنے تہمد کی لپیٹ میں چھپا لیا۔ دکان انہوں نے شیخ عمر علی کے حوالے کی اور اس سے حصہ داری بھی کر لی۔ پھر انہوں نے ساندہ کلاں چھوڑ دیا کیونکہ ان کی نسبت پولیس انسپکٹر صاحب خان نے انہیں ساندہ کلاں سے چلے جانے کا مشورہ دیا تھا۔ چنانچہ وہ پولیس کی ایک لاری میں ساندہ کلاں سے رخصت ہوئے اور امرتسر با حفاظت پہنچا دیئے گئے۔
سد رنگ کے قصبے میں پہنچ کر انہوں نے اپنے پچاس ہزار کے نوٹ گن لئے اور ان میں سے تیس ہزار روپے سے انہوں نے سد رنگ میں ایک بہت بڑی حویلی خرید لی جو قصبے سے ذرا دور باہر کھیتوں میں تھی اور کسی زمانے میں سد رنگ کے ایک بہت بڑے زمیندار کی ملکیت تھی۔ بہت جلد انہوں نے قصبے میں اپنا رسوخ جما لیا۔ ان کی آڑھت کی دکان چمک گئی کیونکہ غلہ بہت مہنگا ہو رہا تھا۔ اور مغربی پنچاب سے شرنار تھی لاکھوں کی تعداد میں چلے آ رہے تھے اور مشرقی پنجاب سے شرنارتھی یعنی مہاجرین یعنی پناہ گزیں مسلمان لاکھوں کی تعداد میں پاکستان بھاگے جا رہے تھے۔ اس موقع پر لالہ گھسیٹارام نے شرنارتھیوں اور پناہ گزینوں کی کافی مدد کی۔ انہوں نے قصبہ میں ایک سیوادل قائم کیا جو آنے والے ہندوئوں اور جانے والے مسلمان دکھیاروں کی دیکھ بھال میں بڑے زور شور سے حصہ لیتا تھا۔ بہت جلد علاقہ میں لالہ گھسٹیارام کا نام روشن ہو گیا۔ لوگ انہیں اور ان کے جان و مال کو دعائیں دینے لگے۔ علاقہ کے بہت سے لوگ جوق در جوق آکے ان کے پاس اپنا قیمتی سامان گروی رکھنے لگے۔ مکان رہن رکھنے لگے اور اس طرح خوشی خوشی مقروض ہوتے گئے۔ سرکار نے انہیں یہاں دوکانیں الاٹ کر دیں اور ایک مکان بھی رہنے کو دیا۔ جہاں انہوں نے اپنے سیو اول کا دفتر قائم کر دیا کیونکہ خود تو وہ اس بڑی حویلی میں رہتے تھے جو قصبے سے بہت دور باہر کھیتوں میں واقع تھی۔
علاقہ کے افسر آتے جاتے لالہ گھسیٹارام کے ہاں ٹھہرتے اور ان کی آؤ بھگت ان کی سوجھ بوجھ اور عقل و دانش کی بے حد تعریف کرتے۔ کئی لوگ تو تعریف میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ کہنے لگے لالہ گھسیٹارام کو تو منسٹر ہونا چاہیے تھا۔ یہ سن کر لالہ گھسیٹارام بڑی عاجزی سے مسکرانے لگتے۔
30نومبر 1947ء کو یعنی پندرہ اگست سے تین ماہ پانچ دن بعد لالہ گھسیٹارام کی حویلی پر پاکستان پولیس کے ایما پر چھاپا مارا گیا اور پولیس نے مسلم مغویہ لڑکیاں برآمد کیں۔ لڑکیوں کے بیان کے مطابق گھسیٹارام ان سے کوئی بدسلوکی نہ کرتے تھے۔ وہ صرف لڑکیوں کی آڑھت کرتے تھے۔ وہ مسلمان لڑکیاں سستے داموں خریدتے اور مہنگے داموں بیچ دیتے۔ نرخ یہ تھا۔
چودہ سے سولہ برس کی لڑکی سات سو پچاس سے ایک ہزار روپے تک
سولہ سے پچاس برس کی لڑکی تین سو سے پانچ سو تک۔
میٹرک پاس لڑکی ڈیڑھ ہزار روپے۔
کالج کی پڑھی ہوئی لڑکی دو ہزار روپے۔
لڑکیوں کے بیان کے مطابق وہ اب تک سینکڑوں لڑکیوں کا بھگتان کر چکے تھے۔ ان بیس مغویہ لڑکیوں میں ایک ساندہ کلاں کی لڑکی تھی جو مشرقی پنجاب میں بیاہی گئی تھی۔ اسے لالہ گھسیٹارام نے خوب پیٹا تھا۔ اس کی عصمت دری کی تھی اور اس سے کہا تھا کہ وہ دو ہزار تولے سونا ساندہ کلاں کی عورتوں کو واپس کرکے آئے ہیں جب تک وہ اس کی قیمت وصول نہ کر لیں گے وہ اسی طرح مسلمان لڑکیاں خریدتے اور بیچتے رہیں گے۔ چھ ماہ بعد لالہ گھسیٹارام باعزت بری ہو گئے۔ ان کی آڑھت کی دوکان پہلے سے بھی زیادہ چلتی ہے حکام اعلیٰ ان کی عزت پہلے سے بھی زیادہ کرتے ہیں ان کی حویلی کے باہر گورے پہرہ دیتے ہیں اور کبھی کبھی آدھی رات کے وقت وہاں سے چیخوں کی صدا بلند ہوئی ہے جسے سن کر لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان رو رہا ہے کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ہندوستان رو رہا ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان رو رہا ہے نہ ہندوستان اس حویلی میں انسان رو رہا ہے اور یہ حویلی سرحد کے آر پار دونوں طرف کھڑی ہے۔