بیرسٹر نوید قاضی
مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خالق شاید اس بنیاد کو بھول گئے ہیں جس پر ایک جمہوری ریاست قائم ہوتی ہے۔ ان کا یہ تصور کہ مخصوص شخصیات، خصوصاً صدرِ مملکت اور پانچ ستارہ فوجی افسران، کو تاحیات قانونی کارروائی سے محفوظ رکھا جائے، عوامی ضمیر کو جھنجھوڑ چکا ہے۔ خود وزیرِاعظم شہباز شریف، جو حکومتی اتحاد کے سربراہ ہیں، نے اس تجویز سے فوری طور پر لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ایک منتخب وزیرِاعظم کو قانون اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہ رہنا چاہیے۔” ان کا یہ بیان قابلِ تعریف ہے، مگر ایک اہم سوال بھی پیدا کرتا ہے: اگر وزیرِاعظم خود جواب دہی سے انکار نہیں کرتے، تو دیگر لوگ خود کو قانون سے بالاتر کیوں سمجھتے ہیں؟
27ویں آئینی ترمیم کی متنازع شقیں آئینی مساوات سے ایک خطرناک انحراف کی علامت ہیں۔ ان میں صدرِ مملکت اور اعلیٰ عسکری قیادت کو تاحیات فوجداری مقدمات، گرفتاری یا کسی بھی قانونی کارروائی سے تحفظ دینے کی تجویز ہے — جو پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک بے نظیر رعایت ہے۔ یہ ترمیم دراصل چند مناصب کو قانون کے دائرے سے باہر لے جاتی ہے، جو اس بنیادی جمہوری اصول کی صریح خلاف ورزی ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک باعزت شہری یا سرکاری عہدیدار کو ایسی رعایت کی ضرورت ہی کیوں ہو اگر وہ اپنے اعمال کے نتائج سے خوفزدہ نہ ہو؟
کچھ حامیوں کا مؤقف ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام اکثر سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوتا رہا ہے۔ یقیناً تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں — وزرائے اعظم کو طویل مقدمات میں الجھانا، سیاست دانوں کو کمزور الزامات پر قید کرنا، اور مخالف رہنماؤں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا۔ مگر اگر یہ جواز درست ہے تو پھر قانونی تحفظ سب شہریوں کو یکساں طور پر حاصل ہونا چاہیے، نہ کہ صرف ایک مخصوص طبقے کو۔ مساوات کا اصول یہ تقاضا کرتا ہے کہ انصاف کمزور کو طاقتور کے ظلم سے بچائے، نہ کہ طاقتور کو احتساب سے۔
وزیرِاعظم شہباز شریف کا موقف اس سیاسی ماحول میں خوش آئند استثنا کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے خصوصی تحفظ کے تصور کو رد کرتے ہوئے یہ آئینی حقیقت دہرائی کہ عوامی منصب دراصل عوامی امانت ہے۔ انہوں نے قانون سازوں کو یاد دلایا کہ حقیقی اختیار ذمہ داری سے پیدا ہوتا ہے، نہ کہ کسی رعایت سے۔ ان کے الفاظ میں اخلاقی وزن ہے — “اصولی طور پر ایک منتخب وزیرِاعظم کو مکمل طور پر جواب دہ رہنا چاہیے۔” یہ اصول صدرِ مملکت اور فوجی قیادت سمیت تمام ریاستی اداروں پر یکساں لاگو ہونا چاہیے۔
تاحیات قانونی تحفظ کا تصور نہ صرف جمہوریت کی روح کے منافی ہے بلکہ قانون کی بالادستی کے اصول سے بھی متصادم ہے۔ برطانوی مورخ لارڈ ایکٹن کا مشہور قول — “اقتدار بگاڑ پیدا کرتا ہے، اور مطلق اختیار مکمل بگاڑ لاتا ہے” — محض نعرہ نہیں بلکہ صدیوں کے تجربات سے حاصل شدہ حقیقت ہے۔ جب کسی شخص کو احتساب سے بچا لیا جائے تو طاقت عوامی خدمت کے بجائے ذاتی مفاد کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہ رویہ غرور، بے لگامی اور ناقابلِ جواب دہ حکمرانی کو جنم دیتا ہے، جو بالآخر جمہوری اداروں کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔
اس نوعیت کا تحفظ ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو بھی کمزور کرتا ہے۔ آئینی جمہوریت میں طاقت عوام سے جنم لیتی ہے، اور حکمران ان کے خادم ہوتے ہیں، آقا نہیں۔ مگر تاحیات قانونی رعایت اس منطق کو الٹ دیتی ہے — خدمت کو حق میں، اور جواب دہی کو ناپید کر دیتی ہے۔ یہ شہریوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ تو ہر عمل کا جواب دیں، مگر طاقتور طبقہ کبھی جواب دہ نہیں ہوگا۔ ایسا نظام عوامی اعتماد کو مجروح کرتا ہے، فاصلے بڑھاتا ہے، اور سیاسی و عسکری اشرافیہ کے خلاف غم و غصہ پیدا کرتا ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی قانون اخلاقی طور پر درست نہیں ہو سکتا اگر وہ انصاف کے اصول کی خلاف ورزی کرے۔ ریاست کا مقصد انصاف قائم کرنا ہے، رعایت دینا نہیں۔ عدلیہ کی خودمختاری، مقننہ کی ساکھ اور انتظامیہ کی جواب دہی آئینی نظام کے باہم جڑے ستون ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک کو خصوصی تحفظ دیا جائے تو باقی دو بھی کمزور ہو جاتے ہیں۔ یہ طاقت کے توازن کو بگاڑ دیتا ہے اور قیادت کو ناقابلِ چیلنج تسلط میں بدل دیتا ہے۔
آخرکار، مجوزہ تحفظی شق نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ پاکستان کی جمہوری روح پر ایک حملہ ہے۔ یہ غیر جواب دہ اختیار کی اسی پرانی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جسے نوآبادیاتی اور مارشل لا ادوار میں پروان چڑھایا گیا، اور جس کا خاتمہ جمہوریت نے کرنا تھا۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے درست اور جرات مندانہ مؤقف اختیار کیا ہے، مگر محض بیانات کافی نہیں۔ پارلیمان کو چاہیے کہ وہ کسی بھی ایسی ترمیم کو مسترد کرے جو کسی شخص کو قانون سے بالاتر بنائے۔ کیونکہ جہاں احتساب ختم ہوتا ہے، وہاں انصاف دم توڑ دیتا ہے — اور جہاں انصاف نہیں، وہاں جمہوریت باقی نہیں رہتی۔













