پاکستان میں ایک سو بارہ ملین سے زیادہ ووٹرز ہیں، جبکہ ٹویٹر صارفین کی تعداد پانچ ملین کے قریب ہے۔
ٹویٹر صارفین کی کثیر تعداد بڑے شہروں میں مقیم ہے جبکہ بہت سے صارفین کے ایک سے زائد اکاؤنٹس ہیں۔ مزید یہ کہ بہت سے صارفین کے پاکستان میں ابھی تک ووٹ ہی نہیں بنے ہیں۔ اسکے علاؤہ ایک کثیر تعداد میں بیرون ملک آباد پاکستانی بھی پاکستانی ٹویٹر پروگرامز پر حصہ لیتے پائے جاتے ہیں۔
ٹویٹر پول کسی بھی طور پر پاکستانیوں کا نمائندہ پول نہیں ہے۔ تاہم دس فیصد تک لوگوں کی رائے کی پیمائش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دس فیصد رائے کی پیمائش بذات خود ایک بڑا سیمپل سائز ہے اور اسکو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پھر ٹویٹر پول سوشل میڈیا میں سے بھی ایک مخصوص ووٹرز کے گروہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر ٹویٹر پاکستان میں تیزی سے مقبول ہونے والا سیاسی سوشل میڈیا فورم ہے جہاں پر قدرے بہتر سیاسی رائے قائم ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا سرویز بشمول ٹویٹر پولز نہ تو تمام آبادی کے نمائندہ سیمپل کے نمائندے ہیں اور نہ ہی آبادی کے تمام گروہوں کی رائے کی پیمائش کے عکاس ہوتے ہیں۔ تاہم اسکے باوجود بھی آبادی کے تقریباً دس فیصد حصے کی سیاسی پیمائش کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو کہ بذات خود ایک
مناسب نمائندگی ہے۔
سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا سرویز اور پولز کو دس فیصد سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے ۔ بلکہ معلومات اکٹھی کرنے کے لئے حلقہ جاتی سرویز اور پولز کروانے چاہیں جن میں عمر، پیشہ، برادریاں ، جنس اور تمام اقسام شامل ہوں۔ ایسی ہی نمایندہ معلومات اکٹھی کر کے وہ بہتر سیاسی فیصلے کر سکیں گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی مقبول جماعت ہے، مگر جن علاقوں میں یہ مقبول ہے وہاں پر سوشل میڈیا بالعموم اور ٹویٹر بالخصوص مقابلتاً انتہائی کم استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا پولز خاص طور پر ٹویٹر میں پیپلز پارٹی کبھی بھی بہتر پرفارم نہیں کر پائے گی۔ اس سے بڑھ کر پاکستان کی انٹرنیٹ کی رسائی آبادی کا پچپن سے ساٹھ فیصد ہے۔ اس لیے آدھی آبادی تو سوشل میڈیا پولز میں کور ہی نہیں ہوسکتی ہے۔
آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
آخر میں سروے ایک سیاسی سائنس ہے، اور پارلیمانی نظام ہونے کی وجہ سے سروے صرف حلقہ جاتی ہی ہوسکتا ہے۔ لہذا پاکستانی سیاسی جماعتوں اور پنڈت حضرات کو صرف حلقہ جاتی سرویز پر ہی رائے قائم کرنی چاہیے۔ سوشل میڈیا سرویز نوجوانوں کی پاپولر سوچ کا عکاس ہوتے ہیں۔