لو افیئر ،لبھ۔۔۔ افیئر

[post-views]
[post-views]


تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
“ہمارے زمانے میں ہمارے شہروں اور دیہاتوں میں لو افیئر کا رواج نہ تھا۔ یہ سہولت فقط بڑے شہروں میں رہنے والوں کو میسر تھی۔ بڑے شہروں میں بھی بڑے لوگوں کو میسر نہیں تھی۔کم لوگوں کو میسر تھی ، چند لوگوں کو میسر تھی ۔ وہ لوگ جو مادی حساب سے بڑے ہوتے تھے، جن کے بیرونی ممالک سے رابطے جڑے ہوتے تھے، جو عوامی رائے عامہ کی پرواہ نہیں کرتے تھے، جن کے شعبے ایسے تھے اور کرتوت ویسے تھے۔ تعلیمی اداروں میں بھی محبت کے دشمن جا بجا پائے جاتے تھے۔ جوڑے جتنا بھی جوڑ توڑ کر لیں انہیں جوڑنا مشکل لگتا تھا۔ محبت جوڑوں کے درد کی عمر میں بھی نہیں ملتی تھی۔ لبھ افیئر یہ تھا کہ والدین آپ کے لیے کسی کو لبھ لیتے تھے یہی والدین افیئر تھا اور یہی ان کے انٹر نل افیئر ،فارن افیئر تھے۔ انٹرنل افئیر کا مطلب یہ تھا کہ شادی خاندان میں کی جاتی تھی ۔ فوراً افئیر کا مطلب یہ تھا کہ فورا کی جاتی تھی ۔لڑکا لڑکی ابھی بلوغت پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے کے لیے ہوا میں ہی ہوتے تھے ، ان کی شادی کر دی جاتی تھی ۔ شادی کی نہیں جاتی تھی، کھڑکا دی جاتی تھی۔گاؤں کا کوئی عالم فاضل بھی میٹرک ، ایف اے ، بی اے میں انگریزی کے ضمنی امتحان سے نہیں بچ سکتا تھا اور اگر تقدیر کوئی انہونی کرنا چاہ رہی ہوتی تھی اور وہ نکل جانے میں کامیاب ہو جاتا تھا توچاچے، پھوپھی ،تائی ، ماسی ، ماموں یا کسی اور قریبی رشتے دار کی بیٹی سے شادی سے نہیں بچ سکتا تھا۔ شادی فقط اتنا فرق ڈالتی تھی ، دلہا دلہن دو مختلف کمروں میں رہنے کی بجائے ایک ہی چھت کے نیچے، ایک ہی کمرے میں رہنا شروع کر دیتے تھے۔ عموما چار دیواری وہی ہوتی تھی اس لیے لبھ افئیرز جلدی اختتام پذیر ہو جاتے”۔چاچا نورا ہمیشہ کی طرح مجمع کو یکسو کر چکا تھا ۔ لوگ مکمل انہماک کے ساتھ سن رہے تھے ۔ ایجی یٹڈ ڈپریشن کا شکار نظر آنے والے ایک نوجوان بھی وہاں موجود تھے ۔نہ وہ ہنس رہے تھے ، نہ چپ تھے ،نہ ہی انہیں کسی کا بے پردہ ہونا منظور تھا ۔ انہیں اس بات پر شدید اعتراض تھا کہ اب ہمارے ہاں کسی کو بھی کسی کا پردہ منظور نہیں۔ ہر کوئی ہنس دیتا ہے مگر چپ نہ رہتا ہے کیونکہ کسی کو تیرا یا میرا تو کیا ، اپناپردہ بھی منظور نہیں۔ اپنے گناہوں کا یوں اشتہار لگاتے ہیں جیسے ہمارے زمانے میں ڈینٹونک یا ڈالڈا کا اشتہار آیا کرتا تھا۔ ٹی وی پر جب بھی اشتہار آیا کرتا تھا، والدین کوقرار آیا کرتا تھا۔ ڈرامہ دیکھنا کوئی اچھا کام نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اشتہار بڑے مزے کے ہوتے تھے۔ خیر ہماری باتیں تو چلتی رہیں گی ۔پہلے دیکھتے ہیں ہمارے ایجی ٹیڈ ڈپریشن کے شکار کیا حکمت بگاری ،فرمانے لگے:-” آج کل بھی معاشرہ لبھ افیئر پر ہی چل رہا ہے۔ پہلے والدین بچوں کے لیے رشتہ تک فوراً لبھ لیتے تھے۔ اب ہماری ساری زندگی دوسروں کے لوگوں کے تعلقات ڈھونڈنے میں گزر جاتی ہے۔ ہم فقط اس تلاش میں ہوتے ہیں کہ کس کا کس سے خفیہ افیئر چل رہا ہے؟ کس نے پوشیدہ شادی کر رکھی ہے؟ کس نے پوشیدہ طور پر کتنا پیسہ جوڑ رکھا ہے؟ کون کیا کر رہا ہے؟ اس ڈھونڈنے کے چکر میں ہماری عمر تمام ہوتی ہے، یوں ہی صبح ہوتی ہے، یوں ہی شام ہوتی ہے ۔ہم لوگوں کی عزت کا فالودہ کیے جا رہے ہیں اور یوں من حیث القوم خود بھی پستی کا شکار ہو ئے جا رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کے معاملات کی بابت تجسس کرنے سے ہمارے دین میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک یورپی خاتون مسلمان ہوئی۔ وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگی:-” اسلام سے زیادہ مہذب اور شفیق دین کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ میری ایک کورس فیلو ایک عراقی مسلم خاتون تھی ۔مجھے اس سے ہمدردی تھی کیوں کہ میرا خیال تھا کہ اسلام میں خواتین کے حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ جب عراقی خاتون میرے خیالات سے آگاہ ہوئی تو اسے ہنسی کا دورہ پڑ گیا ۔ کہنے لگی:-” مسلم خاتون سے معزز کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔اسلام رحم کا نام ہے ۔ ہمارے پیغمبر رحمت اللعالمین تھے ۔ جہاں اللہ تعالی کی مقرر کردہ حد کا سوال آتا ، حضور نبی پاک ﷺ نہ کوئی سفارش سنتے تھے ، نہ کسی کا لحاظ کرتے تھے ۔چوری کے ایک واقعہ کی بابت آپ ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے :-“اگر میرا کوئی اپنا بھی اس فعل کا مرتکب ہوتا تو اسے وہی سزا دی جاتی جو اسلامی سزا ہے ۔ حضور ﷺ نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ تمام مخلوقات کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ۔ آپ ﷺ سے رحیم اور شفیق انسان نہ پہلے کبھی آیا ہے ، نہ آج ہے اور نہ آئندہ کوئی آ سکتا ہے ۔ اسلام تجسس سے منع کرتا ہے ، اک دوسرے کے معاملا ت کی بابت تجسس کرنا منع ہے ۔کتب سیرت میں مذکور ہے کہ کوئی خاتون یا مرد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتا تھا اور اپنے گناہ کا اقرار کرتا تھا تو کبھی نہیں پوچھا جاتا تھا کہ تمہارے ساتھ گناہ میں اور کون کون شریک ہے ۔گناہ گار کو پورا موقع دیا جاتا تھا کہ وہ اپنے اعتراف گناہ کے بارے میں سوچ لے ، وقت دیا جا تا تھا ۔ اگر کوئی مسلم فرد پاکیزہ ہونے کے لیے دنیا میں ہی کوئی حد جاری کروانا چاہتا تھا تو حد جاری کی جاتی تھی ۔ عورت اگر حاملہ ہوتی تھی تو بچے کی پیدائش کا انتظار کیا جاتا تھا ، دودھ پلانے کا موقع بھی دیا جاتا تھا”۔حدود اللہ کا نفاذ پوری قوت سے کیا جاتا تھا۔ آج بھی ہماری بہتری اسی میں ہے کہ ہم حدود اللہ کا نفاذ کریں ۔اسلام کا ایک جامع قانون شہادت ہے۔ جب تک جرم ثابت نہ ہو ، سزا نہیں دی جا سکتی۔ ایک دوسرے کے بارے میں برے الفاظ استعمال کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ کسی کو مذاق میں بھی کالا ،بھدا، ٹڈا،نہیں کہا جا سکتا ۔ فرمان کا مفہوم ہے :-” جو لوگ مومن خواتین پر تہمت لگاتے ہیں ،ان کے بارے میں جھوٹی گفتگو کرتے ہیں ،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیں”۔ فرمان کا مفہوم ہر مسلمان کے ذہن نشین ہونا چاہیے۔ اسلامی فقہ کے ماہر قانون کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-” مرد پر بھی تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔ کسی کے بارے میں جھوٹ نہیں بولا جا سکتا”۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے :-” بلا ضرورت سچ وبال ہوتا ہے۔ کسی کے بارے میں بلا ضرورت سچ بولتے وقت اپنی نیت جاننا بہت ضروری ہے ۔ تجسس نہیں کرنا چاہیے۔ ا فیئر اچھی چیز ہے یا بری اس پر ہم آئندہ دنوں میں بات کریں گے ۔پرانی صورتحال اچھی تھی، بری تھی یا خطرناک تھی یہ بحث بھی آئندہ دنوں کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ آج ہم فقط اتنی گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ لبھ ۔۔افیئرز انتہائی خطرناک ڈائریکشن ہے، انتہائی خطرناک مشورہ ہے۔ کسی کے افیئرز کی بابت مت تجسس کیجیے ، لوگوں کو زندہ رہنے دیجیے۔ افراد آزمائے جا رہے ہیں۔ دنیا میں ہر شخص آزمایا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھیے ۔ اچھا گمان کرنا ایمان کا حصہ ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں گفتگو کرتے وقت احتیاط کیجیے۔صوفیاء کا عقیدہ ہے کہ لوگ ہی جنت جہنم ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک جنت کی ضمانت ہے۔ لوگوں کے ساتھ برا سلو ک جہنم میں لے جانے کا باعث بن سکتا ہے ۔جانوروں کے ساتھ کی گئی نیکی بھی جنت میں لے جانے کا باعث بن سکتی ہے۔ پیاسے کتے کو پانی پلانا اتنا بڑا فعل ہے کہ کسی کو بھی جنت لے کے جا سکتا ہے۔ کسی بھی انسان کی تذلیل کرنا ا نتہائی خطرناک جرم ہے۔دوسروں کو حقیر سمجھنا گناہ کبیرہ ہے۔ خالق خالق کائنات نے اولاد آدم کو عزت بخش دی ہے۔ عزت اولادِ آدم کی عزت کرنے میں ہی ہے۔ اللہ تعالی کی مخلوق کو ذلیل کرنے والا خود ذلیل ہوتا ہے ۔شیطان حضرت آدم کی شایان شان عزت نہ کرنے کی وجہ سے دھتکار دیا گیا ۔جو کسی شریف آدمی کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے وہ مردود ٹھہرتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں مردود ہونے اور مردود لوگوں کے راستے پر چلنے سے بچائے ۔اٰمین ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos