بلبل ہند، فصیح الملک نواب مرزا داغؔ وہ عظیم المرتبت شاعر ہیں جنہوں نے اردو غزل کو اس کی حرماں نصیبی سے نکال کر محبت کے وہ ترانے گائے جو اردو غزل کے لیے نئے تھے۔ ان سے پہلے غزل ہجر کی تڑپ سے یا پھر تخیل کی بے لگام اڑانوں سے عبارت تھی۔ داغ ؔنے اردو غزل کو ایک شگفتہ اور رجائی لہجہ دیا اور ساتھ ہی اسے بوجھل فارسی تراکیب سے باہر نکال کے قلعہ معلیٰ کی خالص ٹکسالی اردو میں شاعری کی جس کی داغ بیل خود داغؔ کے استاد شیخ ابراہیم ذوقؔ رکھ گئے تھے۔ نیا اسلوب سارے ہندوستان میں اس قدر مقبول ہوا کہ ہزاروں لوگوں نے اس کی پیروی کی اور ان کے شاگرد بن گئے۔ زبان کو اس کی موجودہ شکل میں ہم تک پہنچانے کا سہرا بھی داغؔ کے سر ہے۔ داغؔ ایسے شاعر اور فنکار ہیں جو اہنے فکر و فن، شعر و سخن اور زبان و ادب کی تاریخی خدمات کے لئے کبھی فراموش نہیں کئے جائیں گے۔
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
جو زمانے کے ستم ہیں وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے
انہیں قدموں نے تمہارے انہیں قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دوستی میں تری در پردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.