
ملنگ زندگی کی امنگ سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان کے رنگ ڈھنگ بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں اور ترنگ بھی۔ جھنگ کے لوگ بھی زندگی کی امنگ اور ترنگ سے بھرپور ہوتے ہیں۔ انتہائی باشعور ہوتے ہیں۔ ہمارا تو “تانگے والا بھی خیر مانگتاہے “۔ لیکن اگر کوئی بیر پالتا ہے یا ویر نکالتا ہے تو جھنگ کے لوگ جانتے ہیں کہ زندگی ہر گھڑی اک نئی جنگ ہے۔ ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں، وہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام نے جنگ کے بھی اصول بتائے ہیں اور ہمسائیگی کے بھی۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ہمسائے ایسے بھی ہیں جو نہ ہمسائیگی کے طور طریقوں سے آگاہ ہیں اور نہ ہی جنگ کی اخلاقیات سے ۔ چند ممالک یہ یقین رکھتے ہیں کہ جنگ میں سب جائز ہے ۔ چند اقوام فرعونیت اور پاگل پن کی اس انتہا پر ہیں کہ صر ف اپنے وجود کو جائز سمجھتی ہیں اور ہر کسی کو ناجائز سمجھتی ہیں۔ ہمارا واسطہ بھی ایسے ہی ایک فرعونیت زدہ دشمن سے ہے جو زمینی حقائق اور تاریخی پس منظر سے ناآشنا ہے۔ فرقان میں مرقوم ہے کہ اللہ تعالی کے دشمن جتنی بھی تدابیر کرلیں، اللہ تعالی کی فوج کے آگے ہمیشہ بے بس ہوتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ اسلام ا للہ تعالی کا بھیجا ہوا آخری دین ہے اگرچہ اللہ تعالی کے نزدیک دین ہمیشہ اسلام رہا ہے۔ اسلام آباد ، اسلام کے دم سے آباد ہے اور اسلام کے ظہور کا واحد مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالی اپنے دین کو تمام فلسفہ ہائے اور ادیان پر غالب کردے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اپنی ابتدا سے لے کر آج تک اسلام ہر کربلا کے بعد زندہ ہوتا رہا ہے ۔ برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان بھی ہر ابتلا کے بعد مضبوط بن کر ابھرتا ہے ۔ ہمارے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی ہمارے خلاف سازشوں کا جال بچھایا جاچکا تھا۔ پیش گوئیاں کی جارہی تھیں کہ ہم گھنٹوں میں گھٹنے ٹیک دیں گے یا دنوں میں ہمارا وجود قصہ پارینہ بن جائے گا۔ ہم کئی قوتوں کو کھٹک رہے تھے۔ تمام باطل نظریات غلط ثابت ہوئے ۔ ہم قائم رہے، دائم رہے ۔ دنیا کے ممالک کو نہ صرف ہم نے قرضہ دیا بلکہ رہنمائی بھی کی۔ دشمنوں نے اپنی جنگ جاری رکھی تو ہمارے حوصلے بھی بلند سے بلند ترین ہوتے گئے۔ ہر میدان میں ہم نے جنگ جیتی، بھلے وہ کھیل کا میدان تھا یا جنگ کا ، صحافت کا میدان تھا یا ثقافت کا۔ ایک میدان میں مگر ہمارا کوئی بھی دشمن ہمار امقابلہ کرنا تو کیا ، کبھی ہماری گرد بھی نہ پاسکا اور وہ ہے انسانیت کامیدان۔ ہم نے اپنا سب کچھ انسانیت پر قربان کرنے میں کبھی بھی توقف نہ کیا اور ہمارے دشمن سدا انسانیت سے عاری ہوئے، حوس کے پجاری ہوئے، سچائی کے شکاری ہوئے ۔ آپ اپنے دام میں صیاد کا آ جانا فقط شاعری ہی نہیں ، ایک بہت بڑی سماجی سچائی بھی ہے۔ بزرگ صدیوں پہلے کہہ گئے تھے ، جو کسی کے لیئے گڑھا کھودتا ہے، خود ہی اس میں گرتا ہے۔ ہمارے دشمنوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا آرہا ہے اور ان شا اللہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ جب بھی ہمارے خلاف کوئی سازش رچائی جاتی ہے تو، چاند کا تھوکا منہ پر آتا ہے ،کے مصادق ہمارے دشمنوں کا اپنا ہی منہ کالا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا دشمن، میں نہ مانوں، میں نہ مانوں، کاجیتا جاگتا نمونہ ہے اور اس کے لیئے ہر دور میں” کاں چٹا “ہی ہے۔ کائنات کی ازلی و ابدی سچائی ہے کہ مدعی لاکھ برا چاہے ، کچھ بھی نہیں کرسکتا ،کاغذی پھولوں سے کبھی خوشبو نہیں آسکتی۔ سچائی کبھی بناوٹ کے اصولوں سے چھپ نہیں سکتی۔
ہمارے دشمنوں کی رچائی گئی تازہ سازش بھی پہلی سازشوں کی طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ دنیا جان گئی ہے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ؟ کون اصولوں کا علمبردار ہے اور کون ہے چانکیہ کا پجاری ؟ کون امن کا داعی ہے اور کون ہے انسانیت کا شکاری؟ کون مجسم شرافت ہے اور کون ہے مجسم عیاری؟ کون سادہ دل ہے اور کون ہے مداری؟ کون ہے عالمی قانون کا پاسدار اور کون کرتا ہے اصولوں سے غداری، دیکھ رہی ہے دنیا ساری۔
کسی مفکر نے کہا تھا کہ پاکستان تو اسی دن قائم ہوگیا تھا جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا ۔ پاکستان کروڑوں لوگوں کی دلوں کی دھڑکن کا نام ہے، ان شا اللہ پاکستان کو دوام ہے، ہمارے دشمن کا ہر ارادہ خام ہے، پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کا ہمارے دشمن کوایک ہی پیغام ہے،اپنی حد میں رہو ورنہ تمہارا جینا حرام ہے۔ بعض اوقات دشمن کو یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ ہم متحد نہیں ، آپس میں اختلافات کا شکار ہیں ۔ غلط فہمی کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارا خد ایک ہے ، رسول ایک ہے، ہماری کتاب ایک ہے ۔ جب بھی دشمن نے ہمیں کمزور سمجھنے کی غلطی کی، ہم سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ ہم نے ہمیشہ اپنے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ مسلمان کا سب سے بڑا مطمع نظر شہادت ہے:-
؎شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی
ہر مسلمان اللہ تعالی سے ڈرتا ہے ، روز حساب سے ڈرتا ہے۔ حساب کتاب کے بغیر جنت کی تمنا رکھتا ہے۔ شہید بغیر کسی حساب کے جنت میں جائے گا۔ ہمارا ایمان ہے کہ شہید کی جو موت ہے ، وہ قوم کی حیات ہے۔ شہید مرتا ہی نہیں ، حیات ابدی پاتا ہے ۔ فرقان میں مذکور ہے “( ترجمہ):’’اور جو لوگ الله کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ مت خیال کر، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرب ہیں، ان کو رزق بھی ملتا ہے ۔وہ خوش ہیں اس چیز سے جو اُن کو الله تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں، ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔‘‘
اسلامی قوانین کے ماہرین کا خیال ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں شہادت کی تمنا ہوتی ہے ۔ فرمان کا مفہوم ہے کہ جس انسان کے دل میں کبھی شہادت کی تمنا نہ آئی ہو ، وہ نفاق کی موت مرا۔ احمقوں کی جنت میں رہنےو الے سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں صرف وہی شخص فوجی ہے جس نے وردی پہن رکھی ہے ۔ جب کہ ہمارا ہر ذی روح اللہ تعالی کا سپاہی ہے، مادر وطن کا محافظ ہے۔ جب بھی دھرتی ماں نے پکارا، اس کا ہر فرزند، اسے کرے گا سربلند، توڑ دے گا ہر فرعون کا گھمنڈ۔ یہی ہمارے اسلاف کی تاریخ ہے اور یہی ہمارا مقصد حیات ہے ۔ آئیے، ہمیشہ کی طرح دشمن کے ارادے خاک میں ملادیں ۔ پوری دنیا کو ایک بار پھر بتلادیں۔ ہم ہیں پاکستانی ، ہم ہی جیتیں گے۔ ان شاللہ :-
؎سرحد پاک پر
سبز پرچم فضاؤں میں لہرا رہا ہے
جوانان ملت کے
احساس و جذبے کو گرما رہا ہے
یہ میرا وطن ہے مری سرزمیں ہے
جسے میں نے اپنے لہو کی
حرارت سے نغمے کی لے
روح کی تازگی سر خوشی
چاند کی روشنی دل کشی
عشق کا ولولہ حسن کا بانکپن
عزم کی پختگی بخش دی ہے
مجھے یاد ہے
آزمائش کی خونی گھڑی
روندنے آئی تھی
اپنے ناپاک قدموں سے ارض وطن
ایک دیوار فولاد و آہن سے ٹکرائی جب
سرد لاشوں کے انبار اس کا مقدر بنے
اور تاریخ کا فیصلہ ہو گیا
یہ میرا وطن
جس کی تاریخ کا ہر ورق
جاں نثاروں جیالوں جوانوں کی
رسم شجاعت کی اک داستاں ہے
جسے آنے والی نئی نسل دہرائے گی
یہی زندہ قوموں کی تاریخ ہے
جس نے ہر دور میں
سرفروشی شہادت وطن کی محبت کو
عنواں بنا کر
نئے عہد کی داستاں کو مکمل کیا ہے
یہی میری تاریخ کا اک ورق ہے
جسے کل بھی میں نے لکھا تھا
آج بھی لکھ رہا ہوں
جسے آنے والے زمانے کا
ہر نوجواں گرم خوں سے لکھے گا