مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا سعودی موقف خوش آئند ہے۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے ڈیووس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی حکومت کے موقف کا اعادہ کیا۔ اگرچہ سعودیوں نے متعدد بار ایسا کہا ہے، لیکن تازہ ترین تبصرے اس قیاس آرائی کے پیش نظر اہم ہیں کہ ریاض تل ابیب کو تسلیم کرنے کے قریب تھا، خاص طور پر اس کے خلیجی اتحادیوں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے نام نہاد ابراہیم معاہدے کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے بعد۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نے بلومبرگ کو بتایا کہ ” حقیقی استحکام صرف اسی صورت میں آئے گا جب فلسطینیوں کو ایک ریاست تسلیم کیا جائے گا“۔ اس حوالے سے پاکستان نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں بھی کہا تھا کہ دو ریاستی فارمولہ ہی عرب اسرائیل تنازع کا ”واحد قابل عمل حل“ ہے، جب کہ اقوام متحدہ میں اس کے سفیر نے الاقصیٰ کے ’ سٹیٹس کو‘ کے تحفظ کی ضرورت کا اعادہ کیا۔
اگرچہ دیگر مسلم ریاستوں کے ساتھ تعلقات اسرائیل کے لیے اہم ہو سکتے ہیں، لیکن سعودی عرب کے ساتھ خوشگوار تعلقات بہت بڑا نعام ہو گا۔سعودی عرب اسلام کے مقدس ترین شہروں کی میزبانی کرتا ہے، جس دن ریاض نے تل ابیب کو تسلیم کیا، پھر دوسری مسلم ریاستیں بھی ایسا کرنے کے لیے صف آراء ہو سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسلامی بلاک کے اندر اتفاق رائے کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت سعودیوں کی اہمیت سے واقف ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ بات چیت کے دوران، مسٹر نیتن یاہو نے ان اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جو ”سعودی عرب کے ساتھ ایک پیش رفت “ کا باعث بن سکتے ہیں۔ تاہم، جیسا کہ حالات چل رہے ہیں، معمول پر آنا مشکل ہے، کیونکہ نیتن یاہو کی کابینہ کے انتہا پسند ارکان، اور خود اسرائیلی رہنما، مقبوضہ علاقوں میں غیر قانونی بستیوں کو بڑھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ بہت سے اسرائیلی وزراء فلسطینیوں کے بارے میں کھلم کھلا نسل پرستانہ خیالات رکھتے ہیں اور ان سے عربوں کے لیے منصفانہ معاہدے کی توقع رکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ جب تک فلسطینی آزادی سے سانس نہیں لیتے ، حالات معمول پر آنامشکل ہیں۔