اقوامِ متحدہ کے مطابق، مئی کے آخر سے اب تک تقریباً 800 فلسطینی اُس وقت شہید ہو چکے ہیں جب وہ غزہ میں امداد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں اُن مقامات کے قریب ہوئیں جہاں “غزہ فاؤنڈیشن” امدادی سرگرمیاں چلا رہی ہے۔ یہ ادارہ امریکہ اور اسرائیل کی حمایت سے 26 مئی کو اُس وقت قائم ہوا جب غزہ میں دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری ناکہ بندی کے باعث قحط کی صورتحال پیدا ہو چکی تھی۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان روینا شمداسانی نے بتایا کہ 615 افراد کے امدادی مراکز کے قریب فائرنگ سے شہید ہوئے، جبکہ مزید 183 افراد ممکنہ طور پر اُن راستوں پر نشانہ بنے جہاں سے اقوامِ متحدہ اور دیگر اداروں کے امدادی قافلے گزر رہے تھے۔ زیادہ تر زخمیوں کو گولیوں کے زخم آئے، اور انہوں نے عام شہریوں پر ان حملوں کو بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔
اگرچہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اب تک 6 کروڑ 90 لاکھ سے زائد کھانے تقسیم کر چکا ہے اور امدادی مراکز کے قریب کسی جانی نقصان سے انکار کرتا ہے، لیکن اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق ان مقامات پر روزانہ فائرنگ اور بدنظمی کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان ہلاکتوں کے بعد اس نے زمینی دستوں کے لیے نئے رہنما اصول جاری کیے ہیں۔
علاوہ ازیں، غزہ کے سول ڈیفنس محکمے نے اطلاع دی ہے کہ جمعے کے روز مزید 30 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 10 افراد شامل ہیں جو رفح کے علاقے الشاکوش میں امداد کے انتظار میں گولیاں لگنے سے جان کی بازی ہار گئے۔ پورے علاقے میں اسرائیلی فضائی حملے، گولہ باری اور ڈرون حملے جاری ہیں، جن میں اکثر بے گھر شہری نشانہ بن رہے ہیں، حتیٰ کہ جب وہ اسکولوں میں پناہ لیے ہوئے ہوتے ہیں، جیسا کہ جبالیہ میں ایک اسکول پر حملے میں ہوا۔
غزہ میں جاری اس جنگ نے 20 لاکھ سے زائد آبادی کو کم از کم ایک مرتبہ نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں علاقے میں انسانی بحران انتہائی سنگین ہو چکا ہے۔