مبشر ندیم
ریپبلک پالیسی کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق پاکستان کی سیاست، خاص طور پر پنجاب میں، ایک تاریخی تبدیلی سے گزر رہی ہے۔ یہ صوبہ جو کبھی خاندانی، برادری اور سرپرستی کے روایتی سیاسی نظام کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب ایک سماجی اور فکری بیداری کے عمل میں داخل ہو چکا ہے، جس نے ووٹ دینے کے انداز کو یکسر بدل دیا ہے۔
کئی دہائیوں تک پنجاب میں انتخابات جاگیردارانہ اثر و رسوخ، برادری کے تعلقات اور مقامی طاقت کے ڈھانچوں سے طے پاتے رہے۔ امیدوار نظریاتی یا پالیسی بنیادوں کے بجائے ذاتی تعلقات اور انتظامی اثر پر انحصار کرتے تھے۔ مگر اب نئی نسل، خصوصاً شہری نوجوان، اپنی سیاسی طاقت کو باشعوری کے ساتھ استعمال کرنے لگی ہے۔
اب ووٹرز اپنی رائے حکومت کی کارکردگی، معاشی مواقع اور انصاف کی بنیاد پر دے رہے ہیں، نہ کہ خاندانی یا برادری کی وابستگیوں پر۔ سوشل میڈیا، آزاد صحافت، اور سیاسی آگاہی نے روایتی سیاسی اجارہ داریوں کو کمزور کر دیا ہے۔ نوجوان نسل، جو آبادی کا دو تہائی حصہ ہے، خاندانی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے شفافیت، میرٹ اور ادارہ جاتی اصلاحات کا مطالبہ کر رہی ہے۔
انصاف، آزادی اور احتساب اب پنجاب میں سیاسی مقبولیت کے نئے معیار بن گئے ہیں۔ عوام اب طاقتور خاندانوں سے زیادہ قانون کی حکمرانی، آزاد اداروں اور مساوی مواقع پر یقین رکھتے ہیں۔ “انصاف” جو پہلے محض ایک سیاسی نعرہ تھا، اب عوامی توقع بن چکا ہے۔ بڑے شہروں کے پڑھے لکھے اور باشعور ووٹرز اب طاقت نہیں بلکہ آزادی، شفافیت اور مساوات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق برادری اور جاگیردارانہ سیاست کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ دیہی پنجاب میں بھی کارکردگی پر مبنی سیاست کے آثار نمایاں ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات اور سروے ظاہر کرتے ہیں کہ ووٹرز اب مہنگائی، بیروزگاری اور بدعنوانی جیسے حقیقی مسائل پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اب وہ نعروں سے زیادہ عمل اور نتائج دیکھنا چاہتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے سیاست میں بنیادی تبدیلی پیدا کی ہے۔ ٹوئٹر، فیس بک اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارم عام شہری کو آواز دیتے ہیں کہ وہ سرکاری بیانیے کو چیلنج کرے اور انصاف و اصلاحات کا مطالبہ کرے۔ اب سیاسی گفتگو بند کمروں سے نکل کر عوامی ڈیجیٹل میدانوں میں ہو رہی ہے جہاں خیالات، اختلاف رائے اور احتساب نے ووٹر کے شعور کو بدل دیا ہے۔
معاشی بحران اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے بھی سیاسی رویوں کو متاثر کیا ہے۔ عوام اب اپنی معاشی مشکلات کو حکومتی ناکامی سے جوڑتے ہیں۔ ریپبلک پالیسی کی تحقیق کے مطابق ووٹر سمجھنے لگے ہیں کہ وقتی نعروں کے بجائے مستقل اصلاحات اور مؤثر طرزِ حکمرانی ہی ملک کو آگے لے جا سکتی ہے۔ عوام خیرات نہیں، قابلیت اور کارکردگی چاہتے ہیں۔
پنجاب کا سیاسی مستقبل اب اس بیانیے سے جڑا ہے جو انصاف، روزگار اور آزادی پر مبنی ہے۔ موروثی سیاست کا دور ختم ہو رہا ہے، اور باشعور ووٹر اب تنقیدی سوچ کے ساتھ فیصلہ کر رہے ہیں۔ یہ تبدیلی امید اور ذمہ داری دونوں کا پیغام ہے۔ اگر سیاسی قیادت نے اس تبدیلی کو سمجھ لیا اور انصاف، شفافیت اور شہری آزادیوں کو اپنی ترجیح بنایا تو پنجاب ایک جدید اور جوابدہ جمہوریت کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
پنجاب کا ووٹر اب رشتہ داری یا وفاداری نہیں بلکہ نظریے پر ووٹ دیتا ہے۔ ریپبلک پالیسی نے اسے “نیا پنجابی ذہن” قرار دیا ہے — ایک ایسا ووٹر جو اب اس بنیاد پر ووٹ دیتا ہے کہ کون درست سمت میں سوچتا ہے، نہ کہ کون اس کا اپنا ہے۔