ٹرمپ کی نوبل نامزدگی: اہم فیصلے جمہوری احتساب سے مشروط ہونے چاہئیں

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

حکومتِ پاکستان کی جانب سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش نے نہ صرف اس فیصلے کی نوعیت بلکہ اس کے طریقۂ کار پر بھی کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ آئینی طور پر جب “حکومت” کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد وفاقی کابینہ ہوتی ہے، جو ریاست کی اجتماعی انتظامی اتھارٹی کی نمائندہ ہے۔ اگر یہ فیصلہ نہ کابینہ میں پیش ہوا اور نہ پارلیمنٹ میں زیرِ بحث آیا، تو یہ شفافیت، قانونی طریقۂ کار اور جمہوری ساکھ کے حوالے سے ایک تشویشناک معاملہ ہے۔

ایسے فیصلے جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پالیسی یا موقف کی عکاسی کرتے ہوں، ان کا بغیر ادارہ جاتی منظوری کے سامنے آنا جمہوری عمل کو کمزور کرتا ہے۔ پارلیمانی نظامِ حکومت میں عوامی نمائندوں کی مشاورت اور شمولیت کو نظر انداز کرنا نہ صرف عوامی اعتماد کو مجروح کرتا ہے بلکہ اسے غیر جمہوری طرزِ حکمرانی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔

یہ مسئلہ محض طریقۂ کار تک محدود نہیں بلکہ نظامی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب خارجہ پالیسی جیسے نازک معاملات میں فردِ واحد کی صوابدید پر فیصلے ہونے لگیں، تو یہ جمہوری اداروں کے کردار کو غیر مؤثر بنانے کا اشارہ ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے، جو ایک نازک جغرافیائی اور سیاسی تناظر میں موجود ہے، ایسے فیصلے نہایت احتیاط، مشاورت اور ادارہ جاتی عمل سے مشروط ہونے چاہئیں۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ادارہ جاتی بنیادوں پر استوار کرنا ناگزیر ہے۔ ٹرمپ کی نامزدگی سے قطع نظر، اس نوعیت کے فیصلے عوامی نمائندوں کے ذریعے کیے جانے چاہئیں تاکہ قومی مفاد کی حقیقی ترجمانی ہو سکے۔

جمہوریت کے استحکام کے لیے لازم ہے کہ ہر فیصلہ عوامی احتساب، شفافیت اور نمائندہ اداروں کے دائرۂ کار میں کیا جائے۔ یہی جمہوری اقدار کا تقاضا ہے اور یہی پاکستان کے عوام کا حق۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos