تحریر: شفقت اللہ مشتاق
پچھتاوا بھی عجیب چیز ہے اس کے بارے میں جو غیر ضروری سوچتے ہیں وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور جو اس کے بارے میں بالکل نہیں سوچتے وہ پھر سوچتے ہی رہ جاتے ہیں اور پانی پل کراس کر جاتا ہے۔ ویسے تو ہمارے جد امجد آدم کو بھی شجر ممنوعہ کے پاس جانے کا پچھتاوا ہوا ہو گا۔سوچنے کی ضرورت ہے اور سوچنے پر پابندی نہیں ہے، لیکن بسا اوقات سوچنے پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے اور سوچوں کو قید کر دیا جاتا ہے۔ قید بامشقت واقعی اوکھا پینڈا ہے اور پینڈا کرنے کو ہی تو ہم دنیا میں آئے ہیں اور پینڈے کرتے کرتے ایک دن مر جاتے ہیں۔ ہاں کوئی وکھرا کام کر جائیں تو سبحان اللہ سبحان اللہ نہیں تو پچھتاوا ہی پچھتاوا۔ بدن پریشان اور روح بھی بے چین۔ غور طلب معاملہ ہے اور ایسے معاملات کو نمٹانے کے لئے دِل اور دماغ کی بحث تمحیص اور تکرار چاہئے اور فیصلہ ضمیر کی عدالت میں ہوگا۔ عدالت کو غصہ نہیں کھانا چاہئے، کیونکہ غصہ عقل ودانش کو کھا جاتا ہے اور کھانے پینے میں بھی اعتدال چاہئے۔ منشائے رب العالمین بھی ہے کہ ہر چیز میں اعتدال چاہئے۔ اعتدال سے ہی عدل کے شگوفے پھوٹتے ہیں اور اگر عدل بھی افراط وتفریط کا شکار ہوجائے تو پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب پچھتاوا ہوتا ہے۔ اتنے سارے پچھتاوے۔ زندہ لاش۔ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ ہر شے سے بیگانہ۔ ہر چیز سے اچاٹ۔ لفظوں کی ایک اپنی کاٹ ہوتی ہے جو تیر ونشتر بن کر چبھ جاتے ہیں اور مکمل سرجری کا کام کرتے ہیں سرجری سے نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ کنفیوژ لوگ کشتی ڈبو کر ساحل کنارے گم سم بیٹھے ہوتے ہیں۔ پچھتاوا تو ان کو بھی ہوتا ہے۔ فکرو دانش ہے کہ جب چڑیاں کھیت چگ جائیں تو پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پچھلی پر مٹی ڈال دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ آنکھیں کھول کر دیکھنے سے ہی بات آگے بڑھتی ہے نہیں تو آگے بڑھنے والے پاؤں بھی پیچھے سرکنا شروع ہوجاتے ہیں اور پیچھے رہنے والوں پر محض افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ کسی کے لئے رکنا ممکن نہیں ہوتا۔ بات تو بڑی واضح اور سادہ ہے اور سادہ لوح لوگوں کو سمجھ جانا چاہئے نہیں تو شاطر اور چالاک لوگ منزل پر پہنچ کر سونی گلیوں میں مرزا یار بن جائیں گے اور ہم سب کا کام تمام ہو جائے گا۔ اتمام حجت کے لئے نعرہ حق لگانا ہوگا اور یہ نعرہ جوش پیدا کرنے کے لئے نہیں ہو گا بلکہ ہوش کی کھڑکیاں کھولنے کے لئے ہوگا۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ بہرصورت دودھ پینے کی ضرورت ہے تاکہ خون پینے کے رجحان کو کم کیا جا سکے۔
کاش ہم اپنے پچھتاوے کاؤنٹ کر لیتے اور روزانہ کی بنیاد پر ان کا جائزہ لیتے۔ پچھتاؤوں کی لسٹ کہاں سے ملے گی۔ ہمارے دلوں اور دماغوں میں پڑی ہے۔ ایک ایک کر کے اکٹھی کرتے ہیں۔ ہم نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ایمبولینس کے فیول کا بروقت انتظام نہ کیا تھا۔ ہم پاکستان کے قیام کے فوری بعد آئین سازی کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی کئی وزیراعظم مار دیئے۔ ہمارے جمہوریت کے دعویدار جمہوری اصولوں کے قاتل نکلے۔ ہمارے ادارے آپس میں اپنے معاملات فہم وفراست سے طے کرنے سے ہچکچاتے رہے۔ ہم نے اول تو آزادانہ انتخابات کا راستہ پوری طرح روکا اور جب 1970ء میں پہلی دفعہ انتخابات کروائے تو نتائج ماننے سے انکار کردیا اور اس انکار کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے یہی ہمارے جمہوری سفر کی کہانی ہے۔جب پوری دنیا آبادی کے بارے میں منصوبہ بندی کی بات کر رہی تھی ہم نے اس اہم موضوع کو جذباتیت کی نذر کردیا۔ ہم نے بغیر سوچے سمجھے اپنے اخراجات اتنے بڑھا دیئے کہ ہمیں مالیاتی اداروں اور مختلف ممالک سے اربوں کھربوں قرضے لینا پڑے اور اب ادائیگی کے معاملے میں ہم ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں۔ کوئی بھی ملک باقاعدہ ٹیکسز کے نظام کے بغیر نہیں چل سکتا اور ہم نے اس طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے اور ہر سال اب ہم خسارے والا بجٹ پیش کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ اخلاقی انحطاط اس قدر ہمارے ہاں بڑھ چکا ہے کہ ہمیں حلال اور حرام کی تمیز نہیں ہے اور اوپر سے کرپشن نے ہمارے پورے معاشرے کو کھوکھلا کردیا ہے۔ ہم اپنے مفادات کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں اور ہمارا نظام عدل مصلحتوں کا پوری طرح شکار ہو چکا ہے۔ جب ہمارے ہمسایہ ممالک آئی ٹی کی بات کر رہے تھے تو ہمیں اس وقت تک اس اہم شعبے کے فوائد تک کا علم نہ تھا۔ ہمارا دین اسلام ہے اور ہم نے اس کو اپنی من مرضی سے فرقوں میں تقسیم کر دیا اور پھر اس قوم کو ایک دو نہیں کئی لڑائیاں لڑوا دیں۔ افغان وار آج تک ہم لڑ رہے ہیں اور جن کے لئے لڑ رہے ہیں وہ ہمارے بارے میں تشکیک کا شکار ہیں اور ہم چاپلوسی سے کام چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اور ہم دنیا کے ہر مسئلے میں ٹانگ اڑا کر اپنا کوئی نہ کوئی نقصان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اس طرح کے بے شمار کام ہمارے کریڈٹ پر ہیں جن پر ہمیں پچھتاوا ہے اور پچھتاوے کی صورت میں کیا کرنا ہے اس کے بارے میں ہماری سوچ کا باب فی الحال بند ہے۔
جھٹکے لگنے سے ہوش آنے کا امکان ہوتا ہے اور اتنے سارے پچھتاؤوں پر مزید پچھتانا اپنے آپ سے زیادتی کرنے کے مترادف ہے۔ اب بھی اتنا زیادہ کچھ نہیں بگڑا۔ اوپر سے نیچے پیغام جانا چاہیے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ چیزیں اوپر سے نیچے تیزی سے آتی ہیں۔ صاحبان اقتدار اور صاحبان عقل ودانش کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔ ملک کی تعمیروترقی کا ایک جامع پروگرام ترتیب دینا ہو گا اور اس کی بنیاد ملک وقوم کے لئے اپنے اپنے مفادات کی قربانی پر ہو گی۔ قربانی قربانی اور قربانی۔ ویسے بھی قربانی کا مہینہ آنے والا ہے اور یہ قربانی بھی کوئی لمبے عرصے کے لئے نہیں ہو گی۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہو گا۔ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ رول آف لاء کی اہمیت کو سمجھنا بھی ہوگا اور اس کو اپنے اوپر لاگو بھی کرنا ہو گا۔ پلاننگ کے شعبے کو صحیح معنوں میں فعال بنانا ہو گا اور آمدن اور اخراجات میں توازن قائم کرنا ہو گا۔ جمہوریت کے فلسفے کو پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہے اور اپنی سوچ کو جمہوری بنانا ہوگا۔ کلاس سسٹم کا مکمل خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں سے احساس محرومی ختم کیا جا سکے۔ کرپشن کے مطالب و مفاہیم کو پوری طرح جاننے کی اشد ضرورت ہے اور انفرادی طور پر ہر شخص کو اس ناسور کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ بیرونی قوتوں کے مکر و فریب اور ریشہ دوانیوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے اور اپنے اندرونی معاملات ہر لحاظ سے سدھارنے کی ضرورت ہے۔ ہمسایہ ممالک سے بے جا اختلاف کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ دین اسلام کے سنہری اصولوں سے مستفید ہو کر عبادات اور معاملات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا اور فرقہ بندی سے مکمل چھٹکارا۔ان سب اقدامات سے بڑھ کر ہمیں اپنی اپنی نیتیں ٹھیک کرنا ہوں گی کیونکہ مثل مشہور ہے نیت بر مراد۔ کاش ہم سنجیدہ ہو جائیں۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.