Premium Content

پاکستان، افغانستان اور ازبکستان سہ فریقی ریلوے سروس

Print Friendly, PDF & Email

پاکستان طویل عرصے سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت، سیاحت اور ثقافتی روابط کو فروغ دینے کے لیے ریل اور سڑک کے ذریعے زیادہ سطحی رابطے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کی طرف سے ترمیز کو کرم سے مزار شریف کے ذریعے ازبک ریل نیٹ ورک کو پاکستان ریلویز کے ساتھ جوڑنے کے لیے سہ فریقی پروٹوکول پر دستخط بھی اسی کوشش کا حصہ ہے۔ اس سہ فریقی ریلوے سروس کا راستہ ازبکستان میں ترمیز اور افغانستان میں مزار شریف اور لوگر سے ہوتا ہوا پاکستان میں خرلاچی بارڈرا کراسنگ سے ہوتا ہوا کرم میں اختتام پذیر ہوگا۔

 اس منصوبے سے مسافروں کے سفر اور مال برداری کی خدمات میں مدد ملے گی۔ یہ ازبکستان اور پاکستان کے درمیان کارگو کی ترسیل کے وقت میں تقریباً پانچ دن کی کمی اور سامان کی نقل و حمل کے اخراجات میں 40 فیصد کمی کرکے علاقائی تجارت اور شریک ممالک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ شریک ممالک نے 2027 کے آخر تک اس اسکیم کو مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے اور یہ اندازہ  لگایا گیا ہے کہ ٹرینیں 2030 تک سالانہ ڈیڑھ کروڑ تک سامان لے جائیں گی ۔تینوں ممالک  نے پہلے ہی 573 کلومیٹر طویل افغان ریلوے ٹریک کی تعمیر کے منصوبے پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔اس منصوبے کا مقصد  وسطی ایشیا ممالک کو بحیرہ عرب کی بندرگاہوں سے جوڑنا ہے۔ اس سے وسطی ایشیائی ممالک کو ترمیز-جلال آباد-پشاور روٹ کے ذریعے پاکستان کی بندرگاہوں تک رسائی حاصل کر کے عالمی منڈیوں تک پہنچنے کا موقع ملے گا۔

Please subscribe our channel & press Bell Icon.

یہ دونوں منصوبے درحقیقت خشکی سے گھرےلینڈ لاکڈ وسطی ایشیا ممالک  کو سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے دنیا کے لیے کھولیں گے اور پاکستان کو خطے اور روس کی توانائی کی منڈیوں تک رسائی میں مدد فراہم کریں گے۔ اس کے باوجود، یہ منصوبے اس وقت تک ایک خواب ہی رہیں گے جب تک کہ افغانستان  ایسی کسی بھی اسکیم کی کامیابی کی کلید – مستحکم نہیں ہوتا اور اس جنگ زدہ ملک میں سلامتی کے حالات بہتر نہیں ہوتے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اسلام آباد کو بھی سیکورٹی کے مسائل سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی ضرورت ہے، جو کہ سی پیک کی توسیع اور وسطی ایشیا، اور خیبرپختوانخوہ کے ساتھ اقتصادی تعاون کی ایک اہم کڑی ہے۔ اس کے باوجود، وسطی ایشیائی جمہوریہ کے ساتھ روابط کی صلاحیت کو دیگر جنوبی ایشیائی ممالک، خاص طور پر بھارت کو شامل کیے بغیر مکمل طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ صرف ایک مکمل کھلا، محفوظ اور تعاون پر مبنی جنوبی ایشیا ہی ان ریلوے منصوبوں کی کامیابی کی ضمانت دے سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos