مشرق وسطیٰ میں پاکستان کی مؤثر سفارت کاری، مگر ٹرمپ کی نوبل نامزدگی کمزور قدم

[post-views]
[post-views]

حافظ مدثر

مشرق وسطیٰ جیسے نازک اور غیر مستحکم خطے میں پاکستان نے حالیہ برسوں میں ایک متوازن، مفاہمتی اور مؤثر سفارتی کردار ادا کیا ہے۔ ایران، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع کے دوران، پاکستان نے محتاط مگر مستقل سفارتی بیانیہ اختیار کیا، جس نے اسے ایک معتدل ثالث کی حیثیت دی ہے۔ تاہم، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنا ایک ایسا متنازع اور کمزور فیصلہ ہے، جو پاکستان کی غیرجانبدار سفارتی شناخت پر سوال اٹھاتا ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی، جس میں امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا اور ایران نے قطر میں امریکی فوجی اڈے پر میزائل حملہ کیا، مشرق وسطیٰ کو جنگ کے دہانے پر لے آئی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف خطے کے ممالک بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی براہ راست متاثر کر رہی ہے۔

اس تناظر میں پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک کے لیے ایک اصولی، غیرجانبدار اور متوازن سفارت کاری ناگزیر ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، عسکری صلاحیت، اور چین، امریکہ، روس، ایران و عرب دنیا کے ساتھ تعلقات اسے اس قابل بناتے ہیں کہ وہ تنازعات میں ثالث کا کردار ادا کرے۔

پاکستان کی حالیہ خارجہ پالیسی نے مختلف عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھا ہے۔ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری ، روس کے ساتھ تعاون، امریکہ سے عملی تعلقات کی بحالی، اور ایران و عرب دنیا سے مذہبی و ثقافتی رشتے پاکستان کو مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایک فطری ثالث بناتے ہیں۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

یہ سفارتی حکمتِ عملی پاکستان کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ تہران میں صبر و حکمت کی بات کرے، جبکہ واشنگٹن اور تل ابیب کو بین الاقوامی قوانین کا احترام یاد دلاتا رہے۔ یہ “برابر فاصلہ” پاکستان کی سفارتی طاقت ہے، جو اس کی پوزیشن کو مستحکم کرتی ہے۔

ا ایسے موقع پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنا نہ صرف سفارتی طور پر ناقص فیصلہ ہے بلکہ پاکستان کی غیرجانبداری پر بھی سوال کھڑا کرتا ہے۔ ٹرمپ عالمی سطح پر ایک متنازع شخصیت ہیں، خاص طور پر مسلم دنیا میں۔ ان کے دورِ حکومت میں بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی، ایران جوہری معاہدے سے دستبرداری، اور مسلم ممالک پر سفری پابندیاں جیسے اقدامات سامنے آئے۔

ایسے پس منظر میں ان کی امن کے سفیر کے طور پر نامزدگی نہ صرف مسلم دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے بلکہ ایران جیسے قریبی ہمسایہ ملک سے تعلقات کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ یہ نامزدگی اس تاثر کو جنم دیتی ہے کہ پاکستان امریکی داخلی سیاست میں کسی مخصوص طبقے کے ساتھ کھڑا ہو رہا ہے، جو کہ قومی مفاد کے منافی ہے۔

اگر پاکستان واقعی مشرق وسطیٰ میں مؤثر ثالث اور غیرجانبدار ثالث بننا چاہتا ہے تو ٹرمپ کی نامزدگی سے دستبردار ہونا ایک بروقت اور اصولی قدم ہو گا۔ یہ اقدام نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مضبوط کرے گا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دے گا کہ پاکستان امن کو کسی سیاسی یا علامتی اقدام کا محتاج نہیں سمجھتا بلکہ حقیقی سفارتی عمل کو فوقیت دیتا ہے۔

یہ فیصلہ ظاہر کرے گا کہ پاکستان کسی بھی سیاسی مصلحت سے بالاتر ہو کر اصولوں، بین الاقوامی قانون، اور خطے کے امن و استحکام کو مقدم رکھتا ہے۔

ٹرمپ کی نامزدگی نہ صرف سفارتی محاذ پر غلط پیغام دیتی ہے بلکہ یہ قومی خودمختاری اور عوامی رائے کے خلاف بھی محسوس ہوتی ہے۔ پاکستان میں ٹرمپ کی شبیہ مثبت نہیں، اور ان کی مسلم مخالف پالیسیوں کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔ ایسے میں ان کو امن انعام کے لیے نامزد کرنا نہ صرف عوامی جذبات سے متصادم ہے بلکہ یہ تاثر دیتا ہے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

حقیقی خودمختاری صرف زمین اور وسائل پر قبضے سے نہیں بلکہ آزاد، اصولی اور قومی مفادات پر مبنی خارجہ پالیسی سے ظاہر ہوتی ہے۔

پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایک مؤثر اور دیرپا کردار ادا کرے۔ اس کے پاس وہ تمام سفارتی، تزویراتی اور اخلاقی صلاحیت موجود ہے جس کے ذریعے وہ نہ صرف ثالثی کر سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر ایک سنجیدہ قوت کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔

تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان علامتی اور سیاسی طور پر متنازع اقدامات سے گریز کرے۔ ٹرمپ کی نامزدگی جیسے اقدامات وقتی توجہ تو حاصل کر سکتے ہیں مگر طویل مدتی سفارتی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر پاکستان اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرے تو وہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے آپ کو ایک باشعور، غیرجانبدار اور اصولی ریاست کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos